بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Tuesday, 1 November 2011

کفر کی حقیقت


کفر کی معنی
شریعت نے یہ لفظ اِس لئے استعمال کیا ہے کہ کافر اﷲ کی نعمتوں کو چھپاتا ہے اور اُن کا انکار کر تا ہے ، علامہ الازھری فر ماتے ہیں ، اﷲ کی نعمتوں میں یہ واضح ترین دلالت ہے کہ اُن کا خالق ایک ہی رب العالمین ہے اور کافر اِسی نعمت کا انکار کر تا ہے ۔
اِسی طرح اﷲ تعالیٰ کا انبیاءکو کتاب ، معجزات اور دلائل سے مبعوث کرنا بھی ایک نعمت ہے ، اور کافر انبیاءپر عدم ِ ایمان کی وجہ سے اُس نعمت کو اپنے رویے سے چھپاتا ہے اور اُس کا انکار کر تا ہے ۔ 
اصطلاح میں ایمان کے متضاد چیز کو کفر کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اﷲ اور اُس کی نعمتوں کا انکار کر نا ۔ 
شریعت میں کفر کی دو اقسام ہیں،کفر ِ اکبر اور کفر ِ اصغر۔ 
کفر ِ اکبر کامرتکب شخص  دائرہ ِ اسلام سے خارج قرا ر پا تا ہے ،دائرہ ِ اسلام میں نہ ہونے کی وجہ سے اُسے اسلام کا تحفظ اور احترام بھی حاصل نہیں رہتا ، اِسی طرح اگر وہ ابتداءسے ہی کافر تھا ،تو دُنیا میں اُس پر کفر کے احکام لاگو ہوں گے اور اگر اسلام لانے کے بعد کفر کیا تو ارتداد کے احکام لاگو ہوں گے ، آخرت میں اُس کا انجام ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جلنا اور ہر قسم کی شفاعت سے محروم ہو نا ہے ۔ 
کفر کی حقیقت:
                 کفر کی اصلی معنی چھپانے اور پردہ ڈالنے کے ہیں ۔ایسے شخص کو کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی فطرت پر نادانی کا پردہ ڈال رھا ہے ۔ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے اس کا سارا جسم اور جسم کا ہر حصہ اسلام کی فطرت پر کام کررہا ہے ۔اس کے گرد و پیش ساری دنیا اسلام پر  چل رہی ہے ۔مگر اس کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہے ۔ تمام دنیا کی اور خود اس کی فطرت اس سے چھپ گئی ہے ۔ وہ اس کے خلاف سوچتا ہے ۔اس کے خلاف چلنے کی کو شش کرتا ہے۔

کفر کے نقصانات
                        کفر ایک جہالت ہے بلکہ اصلی جہالت ہی کفر ہے ۔اس سے بڑھ کر اور کیا جہالت ہوسکتی ہے کہ انسان خدا سے ناواقف ہو۔ایک شخص کائنات کے اتنے بڑے کارخانے کو رات دن چلتے ہوئے دیکھتا ہے ، مگر نہیں جانتا کہ اس کارخانے کو بنانے اور چلانے والا کون ہے ۔وہ کون  کاریگر ہے  جس نے کوئلے اور لوہے اور کیلشم اور سوڈیم اور ایسی ہی چند چیزوں کو ملا کر انسان جیسی لاجواب مخلوق پیدا کردی ۔ایک شخص دنیا میں ہر طرف ایسی چیزیں اور ایسے کام دیکھتا ہے  جن میں بے نظیر انجینیری ، ریاضی دانی، کیمیا دانی اور ساری دانائیوں کے کمالات نظر آتے ہیں ۔مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ علم اور حکمت اور دانش والی ہستی کونسی ہے جس نے کائنات میں یہ سارے کام سر انجام دیے ہیں جس کو علم کا پہلا سرا ہی نہ ملا ہو؟ وہ خواہ کتنا ہی غور و فکر کرے اور کتنی ہی تلاش و تجسس میں  میں سر کھپائے ، اس کو کسی شعبے میں علم کا سیدھا راستہ نہ ملے گا ، کیوں کہ اس کو شروع میں بھی جہالت کا اندھیرا  نظر آئے گا اور آخر میں بھی وہ اندھیرے کے سوا کچھ نہ دیکھے گا کفر ایک ظلم ہے بلکہ سب سےبڑا ظلم کفر ہی ہے۔تم جانتے ہو کہ ظلم کسے کہتے ہیں ؟ ظلم یہ ہے کہ کسی چیز سے اس کی طبیعت اور فطرت کے خلاف زبردستی کام لیا جائے ۔ تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب اللہ کی تابع فرمان ہیں اور ان کی فطرت ہی  اسلام      یعنی قانون  خداوندی کی اطاعت ہے ۔ خود انسان کو حکومت کرنے کا تھوڑا سا اختیار تو ضرور دیا ہے مگر ہر چیز کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اس سے خدا کی مرضی کے مطابق کام لیا جائے ۔ لیکن جو شخص کفر کرتا ہے  وہ ان سب چیزوں سے ان کی فطرت کے خلاف کام لیتا ہے۔ وہ اپنے دل میں دوسروں کی بزرگی اور محبت اور خوف  کے بت بٹھا تا ہے۔ حالانکہ دل کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اس میں خدا کی بزرگی اور محبت اور خوف ہو ۔وہ اپنے اعضاء سے اور دنیا کی ان سب چیزوں سے جو اس کے اختیار میں ہیں،خدا کی مرضی  کے خلاف کام  لیتا ہے ، حالانکہ ہر چیز کی طبیعت یہ چاہتی ہے کہ اس سے قانون خداوندی کے مطابق کام لیا جائے ، بتا و ایسے شخص سے بڑغ کر اور کون ظالم ہوگا جو اپنی زندگی میں ہر وقت ہر چیز پر حتی کہ خود اپنے وجود پر بھِ ظلم کرتا رہے ؟  
                        کفر صرف ظلم ہی نہیں بغآوت اور ناشکری اور نمک حرامی بھی ہے ۔ ذرا غور کرو ، انسان کے پاس خود اپنی کا چیز ہے؟ اپنے دماغ کو اس نے پیدا کیا ہے یا خدا نے؟ اپنے دل، اپنی آنکھ اور اپنی زبان اور اپنے ہاتھ پاوں اور اپنے تمام اعضاء کا وہ خود خالق ہے یا خدا ؟ اس کے گرد وپیش جتنی چیزیں ہیں ان کو پیدا کرنے والا خود انسان ہے یا خدا ؟ ان سب چیزوں کو انسان کے لیے مفید اور کار آمد بنانا اور انسان کو ان کے استعمال کی قوت دینا انسان کا اپنا کام ہے یا خدا کا ؟  تم کہو گے یہ سب چیزیں خدا کی ہیں ۔ خدا ہی نے ان کو پیدا کیا ہے ، خدا ہی ان کا مالک ہے،اور خدا ہی کی بخشش سے یہ انسان کو حاصل ہوئی ہیں ۔ جب اصل حقیقت یہ ہے تو اس سے بڑا باغی کون ہوگا جو خدا کے دیے ہوئے دماغ سے خدا ہی کے خلاف سوچنے کی خدمت لے ؟ خدا کے بخشے ہوئے دل میں خدا ہی کے خلاف خیالات رکھے ۔ خدا نے جو آنکھیں جو زبان جو ہاتھ پاوں اور جو دوسری چیزیں اس کو عطا کی ہیں  ان کو خدا ہی کی پسند اور اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرے ؟ اگر کوئی ملازم اپنے آقا کا نمک کھا کر اس سے بے وفائی کرتا ہے تو تم اس کو نمک حرام کہتے ہو ۔ اگر کوئی سرکاری افسر حکومت کے دیے ہوئے اختیارات کو خود حکومت کے ہی خلاف استعمال کرتا ہے تو تم اسے باغی کہتے ہو ۔ لیکن انسان کے مقابلے میں انسان کی نمک حرامی ،غداری اور احسان فراموشی کی کیا حقیقت ہے انسان ، انسان کو کہاں سے رزق دیتا ہے ؟ وہ خدا کا دیا ہوا رزق ہی تو ہے ۔ حکومت اپنے ملازموں کو جو اختیار دیتی ہے وہ کہاں سے آئے ہیں خدا ہی نے تو اسکو فرماروائی کی طاقت دی ہے  ۔ کوئی احسان کرنے والا دوسرے شخص پر کہاں سے احسان کرتا ہے ؟ سب کچھ خدا ہی کا تو بخشا ہوا ہے۔ انسان پر سب سے بڑا ہاتھ اس کے ماں باپ کا ہے ۔ مگر ماں اور باپ کے دل میں اولاد کے لیے محبت کس نے پیدا کی؟ ماں کے سینے میں دودھ کس نے تارا ؟ باپ کے دل میں یہ بات کس نے ڈالی کہ وہ اپنے گھاڑے پسینے کی کمائی گوشت پوست کے ایک بے کار ٹکڑے پرخوشی خوشی  لٹا دے  اور اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں اپنا وقت ، اپنی دولت ، اپنی آسائش سب کچھ قربان کر دے؟ اب بتاو کہ جو خدا انسان کا اصلی محسن ہے ، حقیقی بادشاہ ہے ،  سب سے بڑا پروردگار ہے ، اگر اسی کے ساتھ انسان کفر کرے ، اس کو خدا نہ مانے ۔ اس کی بندگی سے انکار کرے اور اس کی اطاعت سے منہ موڑے ، تو یہ کیسی سخت بغاوت ہے ؟ کتنی بڑی احسان فراموشی اور نمک حرامی ہے؟
                        کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ کفر سے انسان خدا کا کچھ بگاڑتا ہے ۔ جس بادشاہ کی سلطنت اتنی بڑی ہے کہ ہم بڑی دوربین لگا کر بھی یہ معلوم نہ کر سکے کہ وہ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے ، جس بادشاہ کی طاقت اتنی زبردست ہے کہ ہماری زمین اور سورج اور مریخ اور ایسے ہی کروڑوں سیارے اس کے اشارے پر گیند کی طرح پھڑ رہے ہیں ، جس بادشاہ کی دولت ایسی بے پایاں ہے کہ ساری کائنات میں جو کچھ ہے وہ اسی کا ہے ، اس میں کوئی ھصے دار نہیں ، جو بادشاہ ایسا بے نیاز ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں بھلا انسان کی کیا ہستی ہے کہ اس کے ماننے یا نہ ماننے سے ایسے بادشاہ کو کوئی نقصان ہو ؟ اس سے کفر اور سرکشی اختیار کر کے  انسان اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑتا البتہ خود اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے ۔
                        کفر اور نافرمانی کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے ناکام و نامراد ہوجائے ۔ ایسے شخص کو علم کا سیدھا راستہ کبھی نہ مل سکے گا  کیوں ہ جو علم خود اپنے خالق کو نہ جانے وہ کس چیز کو صحیح جان سکتا ہے ؟ اس کی عقل ہمیشہ ٹیڑھے راستے پر چلے گی  کیوں کہ جو عقل خود اپنے بنانے والے کو پہچاننے میں غلطی کرے اور وہ کس چیز کو صحیح سمجھ سکتی ہے؟ وہ اپنی زندگی  کے سارے ماعملات میں ٹھوکریں پر ٹھوکریں کھائے گا ۔ اس کے اخلاق خراب ہونگے ، اس کا تمدن خراب ہوگا ، اس کی معیشت  خراب ہوگی اس کی معاشرت خراب ہوگی۔ اس کی حکومتاور سیاست خراب ہوگی  ۔ وہ دنیا میں بد امنی پھلائے گا ۔ کشت و خوں کرے گا ۔دوسروں کے حقوق چھینے گا ۔ظلم و ستم کرے گا ۔ خود اپنی زندگی کو اپنے بڑے خیالات اور اپنی شرارت اور بد اعمالی سے اپنے لیے تلخ کرے گا پھر جب وہ اس دنیا سے گزر کر آخرت کے عالم میں  پہنچے گا تو سب چیزیں جن پر وہ تمام عمر ظلم کرتا رہا تھا ، اس کے خلاف نالش کریں گے۔ اس کا دماغ ، اس کا دل ، اس کی آنکھیں ، اس کے کان ، اس کے ہاتھ پاوں  غرض اس کا رونگٹا رونگٹا خدا کی عدالت میں اس کے خلاف استغاثہ کرے گا کہ اس ظالم نے تیرے خلاف بغاوت کی اور اس بغاوت میں ہم سے زبردستی کام لیا ۔ وہ زمین جس پر وہ نافرمانی کے ساتھ چلا اور بسا ، وہ رزق جس کو اس نے نا جئز طریقوں سے کمایا اور وہ دولت جو حرام سے آی اور حرام میں خرچ  کی گئی ، اور وہ سب چیزیں جن پر اس نے باغی بن کر غاصبانہ تصرف  کیا   وہ سب آلات و اسباب جن سے اس نے بغاوت میں کام لیا، اس کے مقابلے میں باغی بن کر فریادی بن کر آئیں گے اور خدا جو حقیقی منصف ہے ان مظلوموں کی دادرسی میں اس باغی کو ذلت کی سزا دے گا۔  

1 comment:

اپنا تبصرہ یہاں لکھیں

Flickr