ایمان بالغیب سے کیا مراد ہے؟
ایمان بالغیب کے معنی ہیں بغیر دیکھے ان حقیقتوں پر ایمان لانا ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے فرمایا۔
مطلب یہ کہ اللہ تعالی کے مقرر کردہ معیارات[مثلاً حلا ل و حرام ،جائز و ناجائز ] کے آگے اس کے دیے ہوئے اختیارات سے دست بردار ہوجا نا اور اس کی بتائی ہوئی
ہدایات میں ہی اپنی اصل کامیابی کا دل میں یقین پیدا کرلینا ایمان بالغیب کہلاتا ہے۔
قرآن مجید سورہ البقرۃ کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
الذین یومنون بالغیب کہ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
ایمان بالغیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جا سکتے، اُنھیں انسان محض عقلی دلائل کی بنا پر مان لے۔ ذات خداوندی کو ہم دیکھ نہیں سکتے؛ قیامت ابھی ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جبریل امین کو وحی کرتے ہم نے نہیں دیکھا، لیکن اِس کے باوجود ہم اِن سب باتوں کو مانتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِن حقائق کو ماننے کے لیے انفس و آفاق میں اور خود اُس کلام میں جو اللہ کے پیغمبر نے پیش کیا، ایسے قوی دلائل موجود ہیں جن کا انکار کوئی صاحب عقل نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ ہم اِنھیں بے سوچے سمجھے نہیں مانتے، بن دیکھے مانتے ہیں۔ وہ چیز جو دیکھی نہیں جا سکتی، لیکن عقل کے ذریعے سے سمجھی جا سکتی ہے، اُسے دیکھنے کا تقاضا ہی سب سے بڑی بے عقلی ہے۔ کتنی حقیقتیں اِس زمانے میں سائنس نے دریافت کی ہیں جنھیں ہم اپنے حواس کی گرفت میں نہیں لے سکتے، لیکن اِس کے باوجود اِسی طرح مانتے ہیں، جس طرح دوپہر چڑھے کھلے آسمان کے نیچے اِس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ سورج چمک رہا ہے اور اِس کی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ قرآن نے جو حقائق پیش کیے ہیں، اُن پر ہمارے ایمان کی بنیاد بھی یہی ہے۔ وہ، بے شک حواس سے ماورا ہیں، لیکن عقل سے ماورا نہیں ہیں۔ ہم نے اُنھیں عقل کی میزان میں تولا ہے اور اُن میں رتی بھر کمی نہیں پائی۔ چنانچہ ہم اُن پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اُنھیں عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنا پر مانتے ہیں ۔ اِس بات پر اصرار نہیں کرتے کہ آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی مانیں گے۔
This is very helpful for me to understand the meaning of Iman Bil Gaib
ReplyDelete