بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Monday, 21 November 2011

ایمان باﷲ

ایمان باﷲ
ایمان باﷲ، یعنی اللہ تعالیٰ کے واحد و یکتا ہونے، اس کے خالق و مالک ہونے، اس کے پروردگار اور حاجت روا ہونے کا زبان سے اقرار اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کی تصدیق کی جائے تو اس اقرار و تصدیق کے مجموعے کا نام ایمان باﷲ ہے، جو اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔
 ایمان باللہ( جس کا دوسرا نام توحیدہے)  پر ہی دراصل سارے اِسلامی عقائد و اَعمال کی عمارت قائم ہے۔ سارے اَحکام اور قوانین کے صدوراورقوت کامرکز اللہ کی ذات ہے۔ہم فرشتوں پر ایمان اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے فرشتے ہیں اور اْسی کے حکم سے کائنات میں اپنے فرائض بجا لاتے ہیں۔ ہم رسولوں پر ایمان اس لئے لاتے ہیں کہ وہ اْسی کی طرف سے اس کاپیغام دنیا کو پہنچاتے ہیں۔کتابوں پر ایمان اس لئے ہے کہ اْسی اللہ کے اَحکامات پرمشتمل ہوتی ہیں اگرچہ اب صرف قرآن ہی اصل شکل میں محفوظ ہے اور ہم اْسی کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہیں اور آخرت پر ایمان اس لئے ہے کہ وہی ذات انصاف کے دن کی مالک ہے اور وہی اِنسانی اعمال کے مطابق انصاف کرے گا۔ اسی پرباقی سارے اَعمال کو بھی قیاس کرلیا جائے کہ وہ اس لیے بجالائے جاتے ہیں تاکہ ہمارا مالک و آقا راضی ہوجائے۔
حضرت آدم ؑسے نبی اکرمﷺ تک جتنے انبیاء و رسل آئے اْن سب کی دعوت کامرکزی نقطہ ’توحید’ ہی تھا۔ انسانیت کی ابتدا مکمل توحید کی روشنی میں ہوئی پھر جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی گئی تو انسان توحید کے سبق کو بولنے لگا اور اللہ اَحد و صمد کو چھوڑ کر دَر دَر اپنی اْمیدوں اور تمناؤں کے لئے ٹھوکریں کھانے لگا اور اپنا شرف انسانیت کھو کر اپنی ہی تذلیل و رسوائی کا سامان کرنے لگا۔
وہ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے       ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
انسان کی اس نادانی کے باوجود بارباراللہ کی رحمت جوش میں آکر انسانیت کوبھولا ہوا سبق’توحیدیاددلانے کے لئے ہدایت و رہنمائی کاانتظام کرتی رہی ۔
مسلمان نام کی ایک قوم تو اب بھی موجود ہے لیکن اْس کی حالت یہ ہے۔’’وہ اللہ سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں۔‘‘ اسی لیے ان کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ’’ لکڑی کے کندے ہیں جودیوار کے ساتھ چن کررکھ دیئے گئے ہوں۔‘‘ حالانکہ جن قوتوں سے وہ ڈرتی ہے اْن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ’’بے شک اللہ کو چھوڑ کر جن کوتم لوگ پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی تک پیدا کرنے پرقادرنہیں اگرچہ اس کام کے لئے وہ سب مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اْس سے وہ چیز چھڑالینے کی طاقت بھی ان میں نہیں ہے، مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور، ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیساکہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔درحقیقت قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘اْمت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام عظمت اورمنصب امامت اْسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ توحید پر دل و جان سے ڈٹ جائے اور اْن کی زندگیوں میں توحیدکے اثرات واضح طور پر نظر بھی آئیں صرف زبانی کلامی نہیں۔
خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیاحاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
توحید پر ایسا ایمان درکار ہے جس میں مصالحت ،تذبذب اور شک و شبہ نہ ہو بلکہ اصحاب الاخدود اصحاب کہف اورصحابہ کرامؓ جیسا ایمان ہو۔ ساری محبت و اطاعت اللہ ہی کے لئے ہوبلکہ ساری گفتگو کو ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ ساری اْمت مسلمہ اللہ کی ہی ہوکر رہے۔
’’
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے یقیناً اْن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجاؤ اْس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیاگیاہے۔ ہم اس دنیاکی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی یہ ہے سامان ضیافت اْس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔‘‘تاریخ انسانی کے اسٹیج پر بڑے بڑے فرعون آئے اور اپنی اپنی ڈفلی بجاکر نابود ہوگئے۔ اصل قوت و طاقت کامالک تو اللہ الواحد القہار ہے۔ اْسی سے تعلق مضبوط کیا جائے، اْسی سے محبت کی جائے، اْسی سے ہرحال میں رجوع کیا جائے، اْسی کی اطاعت و بندگی کی جائے تو سارے مسائل ختم ہوجائیں گے کیونکہ وہ اپنے بندے کے لئے کافی ہے۔ وہ پکارسنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ تو پھر اصل سہاراچھوڑکر نقلی سہارے تلاش کرناعقل کافتور نہیں تو اورکیاہے۔
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف ِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو


No comments:

Post a Comment

اپنا تبصرہ یہاں لکھیں

Flickr