بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Friday, 25 November 2011

فاروق اعظم عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 فاروق اعظم عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

عمررضی اللہ تعالٰی عنہ بن خطاب بن فضیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی کعب پر پہنچ کر یہ سلسلہ نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو حفص اور لقب "فاروق" ہے امام نووی کی تحقیق کے مطابق آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد ہوئی اور جیسا کہ ذہبی نے لکھا ہے ۔ بعمر ١٧سال ٦ھ نبوی میں مشرف بہ اسلام ہوئے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ٥ھ نبوی میں اسلام لائے اس وقت تک چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔آپ کو " فاروق " کا لقب اس واقعہ کے بعد ملا کہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا اور تصفیہ کے لئے یہودی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث بنانے کی تجویز رکھی ، منافق یہودکے اس سردار کعب بن اشرف کو ثالث بنانے پر مصر تھا ، کافی حیل وحجت کے بعد دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث بنانا مان لیا ۔چنانچہ  وہ دونوں اپنا قضیہ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ اس کا حق پر ہونا ثابت تھا لیکن منافق نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور کہنے لگا کہ اب ہم عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو ثالث بنائیں گے ، وہ جو فیصلہ دیں گئے ہم دونوں کے لئے واجب التسلیم ہوگا ۔ یہودی نے معاملہ کو نمٹانے کی خاطرمنافق کی یہ بات بھی مان لی اور اس ساتھ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پا س گیا ۔ یہودی نے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ بتایا کہ ہم دونوں پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث مان کر ان کے پاس گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا تھا مگر یہ شخص (منافق ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی نہ ہوا اور اب مجھے آپ کے پاس لے کر آیا ہے ۔ حضرت عمر نے منافق سے پوچھا : اس (یہودی ) نے جو بیان کیا ہے وہ صحیح ہے ؟منافق نے تصدیق کی کہ ہاں اس کا بیان بالکل درست ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا : تم دونوں یہیں ٹھہرو ،جب تک میں نہ آؤں واپس نہ جانا ۔ یہ کہہ کر گھر میں گئے اور تلوار لے کر باہر نکلے اور پھر اس تلوار سے منافق کی گردن اڑا دی اور کہا جو شخص اللہ اور اللہ کے رسول علیہ السلام کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے اس کے حق میں میرا فیصلہ یہی ہوتا ہے ،
اس منافق کے وارث حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ پر قتل کا دعویٰ کیا اور قسمیں کھانے لگے کہ حضرت عمر رضی اللہ کے پاس تو صرف اس وجہ سے گئے تھے کہ شایدوہ اس معاملہ میں باہم صلح کرادیں یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے انکار تھا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
الم تر الی الذین
یزعمون انہم امنوبما انزل الیک وماانزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت ۔
"
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی وہ اپنے مقدمے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں (حالانکہ ان کو یہ حکم ہواہے کہ اس کا کفر کریں ) ۔"
ان آیات میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی گئی اور حضرت
عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا لقب :فاروق:: فرمایا۔
اب کوئی منافق اپنے بھائی
کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے یہ نہ کہہ دے کہ میرا بھائی اُس وقت اکیلا تھا اس لیے اس کو قتل کردیا تھا اگر میں ساتھ ہوتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے۔
اور یہاں ایک اور
بات قابلِ فکر ہے کہ جو نبی علیہ السلام اور اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، یا لیتا یا پسند نہیں کرتا تو اس کا ایمان نہیں ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ کا ارشاد بھی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالٰی کے ماننے والے (انبیاء علیہ السلام) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچواور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔ سورۃ المائدہ

حدیث نمبر ۱
ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کہتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سونے کی حالت میں تھا کہ میں نے یہ خواب دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور ان (کے بدن) پر قمیص ہے، بعض کی قمیص تو صرف چھاتی تک ہی ہے، اور بعض کی اس سے نیچے ہےاورعمررضی اللہ تعالٰی عنہ بھی میرے آگے پیش کئے گئے اور ان (کے بدن) پر جو قمیص ہے (وہ اتنا نیچا) ہے کہ وہ اس کو کھینچتے ہوئے چلتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر دین ہے۔

صحیح بخاری:جلد اول
:
باب :اہل ایمان کا اعمال میں ایک دوسرے
سے زیادہ ہونے کا بیان
اس حدیث سے عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے دین و ایمان کا
پتا چلتا ہے کہ آپ کا ایمان اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے زیادہ تھا اور آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ نبی علیہ السلام کی خواب بھی وحی کی قسموں میں سے ایک قسم ہوتی ہے۔ اور اب اگر کوئی عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایمان پر شک کرتا ہے تو اصل میں وہ نبی علیہ السلام کی بات کا انکار کرتا ہے۔

حدیث نمبر ۲
ابن عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ میں سورہا تھا (خواب میں) مجھے ایک پیالہ دودھ کا دیا گیا، تو میں نے پی لیا، یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ سیری (کے سبب سے رطوبت) میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے، پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ نے فرمایا کہ علم۔
صحیح بخاری:جلد اول: باب : علم کی فضیلت کا
بیان
اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمررضی اللہ
تعالٰی عنہ کو اللہ نے بہت زیادہ علمِ دین عطاء کیا تھا، اور یہ علم بذریعہ نبی علیہ السلام عطاء کیا گیا اور اس سے ثابت ہوا کہ نبی علیہ السلام عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے استاد محترم ہیں۔
حدیث نمبر ۳
حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان
کرتے ہیں عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تم میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتنہ کے متعلق حدیث یاد ہے ؟ میں نے کہا مجھے یاد ہے جس طرح آپ نے فرمایا، عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تم اس پر زیادہ دلیر ہو بتاؤ آپ نے کیا فرمایا ؟ میں نے کہا آپ نے فرمایا انسان کے لئے اس کے بیوی بچے اور پڑوسی میں ایک فتنہ ہوتا ہے نماز صدقہ اور اچھی بات اس کے لئے کفارہ ہے اور سلیمان نے کہا کبھی اس طرحکہتے کہ نماز صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا (اس کا کفارہ ہے) عمر رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا مقصد یہ نہیں، میرا مقصد تو وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح موج مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا میں نے کہا اے امیرالمؤمنین ! آپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں، اس لئے کہ آپ اور اُس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ بند دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے ؟ میں نے جواب دیا نہیں ! بلکہ توڑا جائے گا انہوں نے کہا کہ جب وہ توڑا جائے گا تو کیا پھر کبھی بند نہ ہوگا میں نے جواب دیا ہاں (کبھی بند نہ ہوگا) ابووائل کا بیان ہے ہم نے مسروق سے کہا حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھو، انہوں نے حذیفہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، کہا ہاں اس یقین کے ساتھ جانتے ہیں جس طرح ہر آنے والے دن کے بعد رات کے آنے کا یقین ہوتا ہے اور یہ اس لئے کہ جو حدیث میں نے بیان کی ہے اس میں غلطی نہیں ہے۔
صحیح
بخاری:جلد اول:
اور یہ نبی علیہ السلام کا فرمان حرف با حرف سچ ثابت ہوا کہ
عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کیا گیا تھا اور آپ کو شہید کرنے والا کوئی مسلم نہیں تھا اور نہ ہی منافق تھا بلکہ آتش پرست ایرانی تھا، اور اس سے عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی وہ دُعا پوری ہوئی جو انہوں نے اپنے اللہ سے مانگی تھی کہ
زید بن
اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے اے پروردگار!میرا قاتل ایسے شخص کو نہ بنانا جس نے تجھے ایک سجدہ بھی کیا ہو تاکہ اس سجدہ کی وجہ سے قیامت کے دن تیرے سامنے مجھ سے جھگڑے ۔موطا امام مالک:جلد اول:

حدیث نمبر ۴
ابن عمررضی اللہ تعالٰی عنہم روایت
کرتے ہیں، کہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہود و نصاری کو سر زمین حجاز سے جلا وطن کر دیا، اور رسول اللہ علیہالسلام جب خیبر پر غالب ہوئے تو یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا، اس لئے کہ جب آپ کا غلبہ وہاں ہو گیا تو وہاں کی زمین اللہ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کی ہو گی، چناچہ جب یہودیوں کو نکالنا چاہا، تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو زمین پر قائم رہنے دیں اور کھیتی کا سارا کام کریں اور آدھی پیداوار لے لیں تو ان یہودیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ہم تم کو اس پر قائم رکھیں گے جب تک ہماری مرضی ہو گی، اس لئے وہ لوگ اس پر قائم رہے، یہاں تک کہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے (اپنی خلافت میں) یہودیوں کو تیماء اور اریحاء کی طرف جلاوطن کر دیا۔

صحیح
بخاری:جلد اولکچھ یہودیوں کو نبی علیہ السلام نے ہی جلاوطن کر دیا تھا اور کچھ نے یہ آفر کی کہ آپ ہم کو یہاں رہنے دیں ہم آپ کو غلہ کا آدھا حصہ دیں گے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک ہماری مرضی ہوگی یعنی ہم کسی بھی وقت تم لوگوں کو یہاں سےنکال سکتے ہیں، تو پھر اس کا م کو عمررضی اللہ تعالٰی عنہے سرانجام دیا تھااور تمام یہود کے قبائل کو جلاوطن کر دیا۔
حدیث نمبر ۵
ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا تو وہاں ایک عورت ایک محل کی جانب میں وضو کرتی ہوئی ملی میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ تو فرشتوں نے کہا کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا فورا مجھے عمرکی غیرت کا خیال آیا تو میں الٹے پاؤں واپس آگیا (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بھلا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیرت کرسکتا ہوں۔
صحیح بخاری:جلد دوم
:
اس حدیث سے ثابت
ہوا کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل چکی تھی اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی نبی علیہالسلام سے والہانہ محبت کا بھی پتا چلتا ہے کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ رو پڑے کہ میں بھلا آپ علیہ السلام پر غیرت کرسکتا ہوں۔ اور تیسرا یہ معلوم ہوا کہ جن کی غیرت کا احساس نبی علیہ السلام کرتے تھے وہ واقعی بہت غیرت والے ہوں گے اور جو عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں آج کے گندی ذہنیت والے نلوگ الزام تراشیاں کرتے ہیں اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں ایسی گندی زبان استعمال کرتے ہیں کہ میں اس کو لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ صرف اور صرف اپنے گٹیے پن کا اظہار کرتے ہیں وہ سب الزام ایسے ہی ہیں جیسے منافقین نے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگائے تھےاور ان الزامات کو اللہ نے جھوٹا قرار دے دیا تھا، اور جو آج کے منافق اور بےدین لوگ نبی علیہ السلام کے مخلص اور پیارے ساتھیوں پر الزامات لگا رہے ہیں اور ان کے سب الزامات احادیث مبارک سے رد ہوجاتے ہيں الحمدللہ۔
حدیث نمبر ۶
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ محدث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدث (ملہم) ہوا تو وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوگا، زکریا ابن ابی زائدہ سعد ابی سلمہ ابوہریرہ کی دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے بیشتر بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے کہ ان سے (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) الہام ہوتا تھا پس اگر میری امت میں ایسا کوئی ہوگا تو عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ہوگا۔
صحیح بخاری:جلد دوم
:
اس
حدیث مبارک سے دو۲ چیزیں ثابت ہوتی ہیں ایک یہ کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی بزرگی کی دلیل کہ آپ اللہ کے کتنے قریب تھے اور دوسرا یہ کہ نبی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق کہ اگر میری امت میں ایسا کوئی ہوا کہ جسے اللہ کی طرف سے الہام ہو تو وہ صرف عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور جو آجکل جاہل ایسا دعوی کرتے ہیں کہ ان کو الہام ہوتا ہے تو ان کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی فرمانِ رسول علیہ السلام کافی ہے کہ اگر میری امت میں ایسا کوئی ہوا تو وہ صرف اور صرف عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
حدیث
نمبر ۷
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیئے نے اس پر حملہ کیا اور ایک بکری کو اٹھا کر لے گیا چرواہے نے اس بکری کو بھیڑیئے سے چھڑا لیا تو بھیڑیئے نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا سبع کے دن (پھاڑنے والے) بکری کا کون محافظ ہوگا؟ جس دن کہ میرے سوا بکری چرانے والا کوئی نظر نہ آئے گا اور ایک شخص بیل کو ہانکے جا رہا تھا کہ اس پر سوار ہو گیا تو بیل نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا مجھے اس لئے پیدا نہیں کیا گیا کہ تم مجھ پر سواری کرو بلکہ میں کاشت کاری کے کاموں کے لئے پیدا کیا گیا ہوں لوگوں نے یہ واقعہ سن کر سبحان اللہ کہا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ اس پر ایمان لائے ہیں۔
صحیح بخاری:جلد دوم
:
سبحان اللہ اس فرمان
سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی علیہ السلام کی نظر میں ان صحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بہت زیادہ قدرو منزلت تھی اسی لیے ان سےپوچھے بِنا یہ فرمایا کہ اس واقعہ پر مَیں ،ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لائے ۔

حدیث نمبر ۸
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں وضو کر کے باہر نکلے اور جی میں کہا کہ میں آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگا رہوں گا اور آپ ہی کے ہمراہ رہوں گا وہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے مسجد میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا لوگوں نے بتلایا کہ آپ اس جگہ تشریف لے گئے میں بھی آپ کے نشان قدم مبارک پر چلا یہاں تک کہ( بِئرِاَرِیس )کنوےپر جا پہنچا اور دروازہ پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں کا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت سے فارغ ہوئے اور آپ نے وضو کیا پھر میں آپ کے پاس گیا تو آپ ( بِئرِاَرِیس )کنوےپر تشریف فرما تھے آپ اس کے چبوترے کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو کھول کر کنویں میں لٹکا دیا تھا میں نے سلام کیا اس کے بعد میں لوٹ آیا اور دروازہ پر بیٹھ گیا اور اپنے جی میں کہا کہ آج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان بنوں گا پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون؟ انہوں نے کہا ابوبکر! میں نے کہا ٹھریئے پھر میں آپ کے پاس گیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوبکر اجازت مانگتے ہیں فرمایا ان کو اجازت دو اور جنت کی بشارت دے دو میں نے آگے بڑھ کر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اندر آ جائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں چناچہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف چبوترے پر بیٹھ گئے اور انہوں نے بھی اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا دیئے اور اپنی پنڈلیاں کھول لیں پھر میں لوٹ گیا اور اپنی جگہ بیٹھ گیا میں نے اپنے بھائی کو گھر میں وضو کرتا ہوا چھوڑا تھا وہ میرے ساتھ آنے والا تھا میں نے اپنے جی میں کہا کاش اللہ فلاں شخص (یعنی میرے بھائی) کے ساتھ بھلائی کرے اور اسے بھی یہاں لے آئے یکایک ایک شخص نے دروازہ ہلایا میں نے کہا کون؟ اس نے کہا عمر میں نے کہا ٹھریئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کر کے عرض کیاعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہیں اجازت مانگتے ہیں فرمایا ان کو اجازت دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر کہا اندر آ جایئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے وہ اندر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چبوترہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھ گئے اور انہوں نے بھی اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا دیئے اس کے بعد میں لوٹا اور اپنی جگہ جا بیٹھا پھر میں نے کہا کاش اللہ تعالیٰ فلاں شخص (یعنی میرے بھائی) کے ساتھ بھلائی کرتا اور اسے بھی یہاں لے آتا چناچہ ایک شخص آیا دروازہ پر دستک دینے لگا میں نے پوچھا کون؟ اس نے کہا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عفان! میں نے کہا ٹھریئے اور میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر جا کر اطلاع دی فرمایا ان کو اندر آنے کی اجازت دو نیز انہیں جنت کی بشارت دو ایک مصیبت پر جو ان کو پہنچے گی میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے کہا اندر آ جائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی پھر وہ اندر آئے اور انہوں نے چبوترہ کو بھرا ہوا دیکھا تو اس کے سامنے دوسری طرف بیٹھ گئے (شریک راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ سعید بن مسیب کہتے تھے میں نے اس کی تاویل ان کی قبروں سے لی ہے۔

صحیح بخاری:جلد دوم
سبحان اللہ اس حدیث میں تین خلفاءراشدین رضی اللہ
تعالیٰ عنہم کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہےاور بہت افسوس کے ساتھ کہ کچھ ظالم اور نیچ ذہنیت رکھنے والے لوگ ان تین اصحابِ رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہی سب سے زیادہ دشمن ہیں وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کو نبی علیہ السلام نے اپنے بہترین اصحاب میں شامل فرمایا اور ان کو جنت کی بشارت ان کی زندگی میں کردی تھی جوکہ منافقین کو ایک آنکھ بھی نہ بائی اور شروع سے لے کر آج تک آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ انہی تین اصحاب رضی اللہ عنہم کے سب سے زیادہ دشمنی رکھتے ہیں۔

حدیث
نمبر ۹
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں نے خواب میں دیکھا) کہ میں ایک کنویں کے اوپر ہوں اور اس سے پانی کھینچ رہا ہو ابوبکر اور عمر میرے پاس آئے ابوبکر نے ڈول لیا تو انہوں نے ایک دو ڈول پانی نکالے اور ان کے ڈول کھینچنے میں کمزوری (پائی جاتی) تھی اللہ تعالیٰ معاف کریں پھر عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے وہ ڈول لے لیا جو ان کے ہاتھ میں ہلکا پھلکا بن گیا پس میں نے کسی جوان قوی مضبوط شخص کو نہیں دیکھا جو ایسی قوت کے ساتھ کام کرتا ہو انہوں نے اس قدر پانی کھینچا کہ تمام لوگ سیراب ہو گئے پانی کافی ہونے کی وجہ سے اس جگہ کو لوگوں نے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا لیا۔
صحیح بخاری:جلد دوم
:
اس خواب کی تعبیر
شاید یہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں کم علاقہ مسلمانوں نے فتحکیا تھا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورمیں زیادہ علاقہ تقریبا ۲۴ لاکھ مربع کلومیٹر کا علاقہ فتح کیا تھا۔ باقی اصل حقیقتِ حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
حدیث
نمبر ۱۰
حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسالت مآب صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمررضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔
صحیح بخاری:جلد دوم
:
اس واقعہ سے نبی علیہ
السلام اور عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آپس کی محبت اور الفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سبحان اللہ




No comments:

Post a Comment

اپنا تبصرہ یہاں لکھیں

Flickr