بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Thursday 12 June 2014


  مسجد بلال و دارالعلوم ابو ھریرۃ 
جھڑبی موڑ مدرسہ اسٹاپ میرپورخاص 

جنت کے حصول کا نادر موقع

فرش کا کام آپ کی توجہ کا منتظر ہے ۔

ایک دنیا ستر آخرت۔

رابطہ کے لیے
 مفتی محمد مسلم
03332992438 

Wednesday 28 March 2012

مساوات

مساوات

مساوات کا مفہوم

مساوات کے لفظی معنی برابری کے ہےں لیکن اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں نکلتا کہ تمام افراد کو اعلی اور ادنی خدمات کا ایک ہی معاوضہ دیا جائے بلکہ شریعت کے حکم کے مطابق لوگوں سے موقع کے حصول میں مساوات بڑھتی جائے۔

مساوات کی اقسام

مساوات کی دو اقسام قابلَ غور ہیں:
(۱) قانونی مساوات                                   (۲) معاشرتی مساوات

(۱) قانونی مساوات

قانونی مساوات سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص مفلس ہو یا خوشحال، کالا ہو یا گورا، عالم ہو یا جاہل قانون سے بالا تر نہیں۔ اگر اس سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو اس کی حیثیت اور دولت کے بناءپر کوئی رعایت نہ برتی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے مےں ارشاد فرمایا ہی کہ:
کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر سوائے تقی کے۔

(۲) معاشرتی مساوات

معاشرتی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں کسی کو اولیت حاصل نہیں ہے بزرگی اور عظمت کا معیار صرف تقوی ہے۔
بے شک خدا کے نزدیک سب سے زیادہ تم میں عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوی والا ہے۔
بقول شاعر
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اسوة رسول اور مساوات
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں سب برابر تھے امیر، غریب، آقا غلام، صغیر و کبیر سب برابر تھے۔ عربی اور عجمی میں کوئی تفریق نہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ایسی پچاسوں مثالیں مل جائیں گی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا عمل ہر موقع پر مساویانہ رہا۔ حضور کا یہ طریقہ تھا کہ مجلس میں کوئی چیز تقسیم فرماتے تو دائیں جانب سے شروع کرتے بعض اوقات یہ بھی ہوتا کہ دائیں جانب عام لوگ ہوتے اور بائیں جانب معززین بیٹھتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا طریقہ کبھی بھی نہ بدلتے۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مساویانہ رویہ کی مثال
غزوہ بدر میں سواریاں کم تھیں۔ تین افراد کے حصے میں ایک سواری آئی لہذا صحابی باری باری اترتے۔ آپ صلی اللہ علیہ سلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ صحابہ رضہ حاضر ہوتے اور خواہش ظاہر کرتے کہ ہم آپ کے بدلے پیدل چل لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے:نہ تم مجھ سے زیادہ پیادہ پا نہ میں تم سے کم ثواب کا محتاج ہوں۔
غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی قیدی بن کر آئے۔ چونکہ وہ آپ سے قرابت داری رکھتے تھے اس لئے صحابہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے فدیے کی رقم معاف کردی جائے۔ لیکن آپ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا اور حکم دیا کہ ایک درہم بھی معاف نہ کرو۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری خطبہ دیا اس میں معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی ہے۔
قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے الزام میں گرفتار ہوئی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باتھ کاٹ ڈالنے کا حکم دے دیا۔یہ فیصلہ لوگوں کو گوارہ نہ تھا ان کا خیال تھا کہ اس طرح خاندان کی بدنامی ہے۔ چنانچہ حضرت اسامہ رضہ کو جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا محبت کرتے تھے سفارش کے لئے بھیجا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
اسامہ تم کیا حضورِ خداوندی میں سفارش کرتے ہو۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا:
پچھلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں جب ان میں کوئی معزز آدمی جرم کرتا تو نظر انداز کردیتے اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اس کی سزا دیتے۔ خدا کی قسم اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئیے جاتے۔
  

Friday 23 March 2012

سوالات


اسلامی معلومات

1.      جہاد کے لغوی معنی کوشش کے ہیں۔ 
2.      رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فریضہ حج دس ہجری میں ادا فرمایا۔ 
3.      سنن نسائی کے مصنف امام عبدالرحمان احمد بن علی انسانی ہیں۔ 
4.      حضرت ابوبکر رضہ نے قرآن مجید کی تدوین کا کام حضرت زید بن ثابت کے سپرد کیا۔ 
5.      جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے بلاشبہ اللہ تعالی کی اطاعت کی۔ 
6.      قرآن مجید کی سب سے طویل سورة البقرہ ہے۔ 
7.      آیت کے معنی عربی زبان میں نشانی کے ہیں۔ 
8.      زبور حضرت داود ؑ پر نازل ہوئی۔ 
9.      آخری الہامی کتاب قرآن مجید ہے۔ 
10.  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کا نام عبدالمطلب ہے۔ 
11. پہلی وحی غارِ حرا میں ناذل ہوئی۔ 
12.  قرآن پاک میں کل6666 آیات ہیں۔ 
13.  قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں۔ 
14.  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے دادا نے رکھا۔ 
15.  قرآن میں کل سات منزلیں ہیں۔ 
16.  قرآن کی سورة التوبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی جاتی۔ 
17.  صلوة تراویح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دنوں تک پڑھائی۔ 
18.  حسد نیکیوں کو اسطرح کھاجاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ 
19.  قرآن مجید میں540 رکوع ہیں۔ 
20.  تلاوتِ قرآن پاک کے وقت سکون اور رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ 
21.  عقیدہ ختم نبوت قرآن، حدیث اور اجماع تینوں سے ثابت ہوا ہے۔ 
22.  بہترین دعا نماز ہے۔ 
23.  سب سے پہلی لڑائی جو کفار سے ہوئی اسے غزوہ بدر کہتے ہیں اور آخری کو غزوہ تبوک کہتے ہیں۔ 
24.  نمود و نمائش بھی جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے۔ 
25.  عقد کے معنی باندھنا اور گرہ لگانا کے ہیں۔ 
26.  عقیدہ کے معنی باندھی ہوئی چیز کے ہیں۔ 
27.  انسان کے پختہ اور اٹل نظریات کو عقائد کہا جاتا ہے۔ 
28.  تمام پیغمبروں نے اپنی تبلیٰغ کا آغاز عقائد کی اصلاح سے کیا۔ 
29.  اسلامی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ توحید کا ہے۔ 
30.  دنیا کا پہلا انسان عقیدہ توحید ہی کا قائل تھا۔ 
31.  سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ  تھے۔ 
32.  شرک کے معنی حصہ داری کے ہیں۔ 
33.  شرک کی تین اقسام ہیں۔
34.  اللہ تعالی انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ 
35.  توحید کے بعد رسالت کا درجہ ہے
36.  نبی کے معنی ہیں خبر دینے والا۔ 
37.  انبیاء کی تعدادکم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ 
38۔رسالت کے معنی پیغام پہنچانے کے ہیں۔

Thursday 15 March 2012

حقوق العباد

حقوق العباد

حقوق سے مراد:

حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری۔ حقوق دو قسموں کے ہوتے ہیں:
(۱) حقوق اللہ                                           (۲) حقوق العباد

حقوق اللہ

اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے اپنے سرے حقوق بندوں کو بتادیئے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمام وہ کام کرو جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا۔

حقوق العباد

عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کے لئے ضروری یعنی حقوق۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب، ہر ذات و نسل، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے۔ والدین اگر اولاد کے لئے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کے لئے ۔ حقوق العباد میں مختلف حیثیت اور درجات کے لوگوں کے حقوق آجاتے ہیں۔

تمام انسانوں کے لئے حقوق

جب ہم انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہےں تو اس میں مخصوص قسم کے لوگوں کے حقوق نہیں آتے بلکہ پوری انسانیت ہماری نظر کرم اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے۔ اسلام نے پوری انسانیت کے حقوق ادا کرنے پر اس قدر زور دیا ہے کہ کسی بھی مذہب میں کچھ نہیں کہا گیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم کو بہترین امت کہا گیا ہے۔
مسلمان اس لئے سب سے بہترین امت ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے روکتی ہیں۔
میں اپنے حقوق کو معاف کردوں گا مگر بندوں کے حقوق کی معافی نہیں دے سکتا۔

والدین کے حقوق

قرآن پاک نے والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
ماں باپ کی خدمت گزاری اچھی طرح کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ جوکچھ اپنے مال سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ماں باپ کا نافرمان جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی والدین نے ساتھ عزت و احترام محبت اور خدمت کی سخت تاکید کی تھی۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:   تمہاری جنت تمہارے والدین ہیں اگر وہ خوش ہیں تو تم جنت میں جاو گے۔

اولاد کے حقوق

ماں باپ جس طرح اولاد کی پرورش، خدمت اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ اولاد کا حق ہے۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت ماں باپ کا فرض بن جاتا ہے۔ ایک حدیث اس بات کو اس طرح ثابت کرتی ہے۔
باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ان میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔

عزیزوں اور قرابت داروںکے حقوق

ہر انسان کے عزیز و اقارب ضرور ہوتے ہیں اور زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہتا ہے۔ اللہ نے ان کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں:
جوکچھ اپنے مال میں سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے اور قرابت داروں کا بھی۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عزیزوں اور رشتہ دارون کے حقوق مقرر کردئیے اور فرمایا:
رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید اور احادیث نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں۔ یعنی ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بہت سے ایسے کام کرنا جن سے رشتہ داروں سے تعلقات خوشگوار قائم رہیں ہمارے فرائض میں شامل ہیں۔

ہمسایوں کے حقوق

ہمسائے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے گھر کے بالکل نزدیک ہوتے ہیں اور عزیز نہیں ہیں۔ دوسرے وہ جو عزیز بھی ہوں اور تیسرے وہ جو ہمارے گھر سے ذرا دور رہتے ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ زور ان ہمسایوں پر دیا ہے جو گھر سے بالکل نزدیک رہتے ہےں۔ ان کا ہم پر حق سب سے زیادہ ہے اور وہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو ہمارے ہمسایوں کو تکلیف پہنچائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
اپنے گھر کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسایوں کی دھوپ اور روشنی رک جائے۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بار بار ہمسایوں کے حقوق اس انداز میں مقرر فرمائے کہ یہ ڈر ہوا کہ کہیں وراثت میں ان کا حق نہ مل جائے۔ لہذا ہمیں ہمسایوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے:
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود پیٹ بھر کے کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔

استادوں کے حقوق

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:               مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
اسلام نے تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پہلا پیغام ملاتھا وہ لفظ پڑھو سے ملا تھا۔ علم انسان کے لئے اس قدر اہم چیز ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک جاری رہتا ہے اور ہرشخص یعنی مردوعورت، جوان و بوڑھے پر ایک فرض کی طرح عائد کیا گیا ہے۔
جب علم کی اس قدر اہمیت ہے تو معلیم کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہوسکتی۔ مختصراً یہ کہ والدین جو ہماری پیدائش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور معلم جو ہماری نشونما کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو والدین کی طرح سے ہی معلم بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے معلم اور طالبعلم کے درمیان رشتہ اور حیثیت کی اچھی طرح وضاحت ہوتی ہے:
معلم کی حیثیت بارش جیسی ہوتی ہے اور طالبعلم کی حیثیت زمین جیسی جو بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جو زمین بارش کی فیض و برکات سے سرسبزو شاداب ہوجاتی ہے اس کا مطلب ہوا کہ زمین نے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیااور جو زمین بارش کے پانی کو ضائع کردیتی ہے وہ بنجر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح طالبعلم علم کی بارش کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے وہ خوب سیراب ہوجاتا ہے۔ اور اس کا استاد اسکو آگے جاتا ہوا دیکھ کر حسد نہیں کرتابلکہ خوش ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے زمانے میں شاگرداستاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنالیتے تھے۔

غلاموں، ناداروں، مسکینوں اور مفلسوں کے حقوق

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم طبقے کے حقوق اچھی طرح سمجھائے، مقرر کیے اور ادا کئے۔ یہ طبقہ اسلام سے قبل بڑی ذلت آمیز زندگی گزارتا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں ان سے کے حقوق مقرر کئے:
بیماروں کی عبادت کرنا ان کا حق ہے، یتیموں کی کفالت کرنا ان کا حق ہے۔

حرفِ آخر

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کی بہتری اور بقاءکے لئے اپنے اعمال، کردار اور اخلاق و اقوال سے ایسا نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے سب کی رہبری کرتا رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمتِ عالم تھے۔ یہی وجہ تھی کوئی بھی طبقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور حسن سلوک سے محروم نہ تھا۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے خود حقوق ادا کرتے اور پھر دوسروں کو تاکید فرماتے تھے۔


نماز

نماز

نماز کے لغوی معنی

نماز کے لغوی معنی صلوة ہیں جس کا اردو میں مطلب دعا کرنا اور التجا کرنا ہے۔

نماز کے شرعی معنی

شریعت کی اصطلاح میں نماز عبادت کا ایک خاص طریقہ ہے جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بتایا تھا۔ اسلامی عبادت میں یہ سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے جو ہر جوان اور بوڑھے، مرد اور عورت پر فرض ہے۔

نماز کی تاریخ

توحید کے بعد نماز اللہ کا وہ پہلا حکم ہے جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے ادا ہوا۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ:
اے لحاف میں لپٹے ہوئے آٹھ اور ہوشیار ہوکر اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔
شروع شروع میں نماز مختصر اور کم تھی۔ معراج پر تشریف لے جانے کے بعد پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی پیغمبر ایسا نہیں کہ جس نے نماز کی تعلیم نہ دی ہو۔ حضرت ابراہیم نے بھی اپنی نسل کے لئے یہ دعا فرمائی:
اے میرے پروردگار مجھ اور اور میری نسل کو نماز قائم کرنے والا بنا۔
تمام امتیں اپنے پیغمبروں کی بتائی ہوئی نمازیں ادا کرتی تھیں۔ مگر آہستہ آہستہ ان میں بہت سے غلط اور مشرکانہ باتیں شامل ہوگئی۔ ارشادِ ربانی ہے کہ: خانہ کعبہ کے نزدیک ان کی نماز کیا ہوتی وہ سیٹیاں بجانے اور تالیاں پیٹتے۔

نماز کی اہمیت قرآن کی نظر میں

تماز ایسی عبادت ہے جس کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے اور تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ نماز کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:
نماز کی حفاظت کرو۔
متقی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ نماز ادا کرتے ہیں۔
اور نماز پڑھا کرو، زکوة دیا کرو اور خدا کے آگے جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔
اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاو۔

نماز کی اہمیت حدیث کی روشنی میں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز کی فرضیت اور فضیلت و اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ باربار نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے اور نماز چھوڑنے پر سخت عذاب کی خبر سنائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نماز مومن کی معراج اور دین کا ستون ہے۔
نماز جنت کی کنجی ہے۔
جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔
قیامت میں سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا۔
دین کی اصل بنیاد خدا اور رسول کے آگے سرجھکادینا ہے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو اس قدر اہم بتایا ہی کہ نماز ہی مسلمانوں اور کافروں میں فرق ظاہر کرتی ہے۔ نماز تمام عبادتوں میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ قبر اور قیامت میں پہلا سوال نماز کا ہوگا اور اور یہ پہلا سوال صحیح ہوگیا تو باقی سوالات بھی آسان ہوجائیں گے۔ نماز سے انسان نظم و ضبط کا پابند ہوجاتا ہے اور نماز ہی آخرت کی کامیابی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہی کہ:
نماز ٹھیک نکلی تو آخرت میں کامیاب و بامراد ہوگا ورنہ نادم ہوگا اور خسارے میں رہے گا۔
ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک انسان ہوش و حواس میں قائم رہیں نماز کی پابندی ضروری ہے۔ نماز کی اہیت یہ بھی ہے کہ نماز پڑھتے وقت نمازی کا سارا جسم، دل و دماغ، سب نماز مےں مصروف ہوجاتے ہیں۔

نماز کی فرضیت

نماز کی فرضیت اس بات سے ظاہر ہے کہ قرآن کے آغاز اور نزول میں فرض عائد کیا گیا تھا۔ نہ صرف حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر بلکہ دوسرے انبیاءکی امتوں پر بھی یہ فرض کی گئی تھی۔ قرآن میں نماز کی فرضیت کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور اس کا نہ پڑھنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سب سے پہلا حکم ملا وہ نماز ہی کا تھا۔ اور آخرت میں سب سے پہلا سوال بھی نماز ہی کا ہوگا۔ نماز جونکہ دینی تربیت کا اہم حصہ ہے اس لئے تمام انبیاءبھی اپنی امتوں کو بار بار نماز کی تاکید کرتے رہے۔ اللہ تعالی نماز کو دنیا و آخرت کی فلاح کا ذریعہ بتایا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ:
جب عذاب کے فرشتے دوزخیوں سے عذاب پانے کی وجہ پوچھیں گے تو وہ جہنم میں پھینکے جانے کی وجہ یہ بتائیں گے کہ ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔

Flickr