بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Wednesday, 30 November 2011

عقیدہ رسالت

عقیدہ رسالت

رسالت کا مفہوم

 اللہ تعالی کی بندگی اور اطاعت کا نام آتے ہی فطری طور پر اللہ تعالی کے احکام اور رضا کا سوال سامنے آکھڑا ہوجاتا ہی۔ کیونکہ جب بھی ایک انسان اپنے پروردگار کا اطاعت گزار بن کر رہنے کا فیصلہ کرے گا تو وہ جاننا چاہے گا کہ اس کے مالک کے احکام کیا ہیں۔ وہ کن باتوں کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اس کا وفادار رہنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے۔ ان ساری باتوں کو جانے بغیر اطاعتِ الہی کی راہ میں پہلا قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس صورت حال کا واضح مطالبہ یہ تھا کہ اس معاملے میں انسان کو بھٹکنے کے لئے چھوڑنے کے بجائے اس کی رہنمائی کی جاتی کیونکہ اس کی فکری اور روحانی قوتوں میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ مراتب اور ھدایت  معلوم کرلیتے حالانکہ انسان کو اس بات کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پانی، ہوا اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک طرف تویہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت تھی اور دوسری اللہ کا عدل اس کی رحمت اور اس کی ہرصفت کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ انسان کو یوں بھٹکنے کے لئے نہ چھوڑ دے بلکہ وہ انسان کے لئے اخلاقی، دینی، سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے انتظام کرے۔ یہی وہ انتظام تھا جسے دین کی اصطلاح میں رسالت کہاجاتا ہے۔

رسول کی خصوصیات

 انسان کو جس طرح ہوا اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح الہامِ ہدایت ار انبیاءکی تعلیم کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے انسان (حضرت آدم ؑ) کو بھیجا اور اسے منصبِ نبوت سے سرفراز کیا۔ حضرت آدم ؑ کے بعد مختلف جگہوں پر مختلف انبیاءکو انسانوں کی ہدایت اور راہمائی پر فائز کیا۔ ان میں حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت نوح ؑ ، حضرت اسحق ؑ اور حضرت یحیٰ ؑ کے نام ہم اچھی طرح مانوس ہیں۔ ان کے علاوہ کئی انبیاءآئے ایک اندازے کے مطابق ان کی تعدادکم و بیش  ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔
قرآن مجید میں انبیاءکی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) بشریت
اگر چہ انبیاءکرام روحانی اعتبار سے عام انسانوں سے بہتر تھے اس کے باوجود وہ سب انسان ہی تھے۔ وہ نہ فرشتوں کے گروہ سے تھے اور نہ جنوں کے گروہ سے اس لئے ہر نبی نے ہمیشہ اس بات کا اعلان کیا کہ:
میں تمہاری طرح کا انسان ہوں۔
سورة ابراہیم کی آیت میں وضاحت ہوتی ہے:
بلاشبہ ہم تمہاری طرح انسان ہیں۔
(۲) ودیت( عطا)
ویت کے معنی ہیں رسالت کوئی ایسی شے نہیں جو محنت تلاش اور جستجو سے مل جائے بلکہ وہ اللہ کو عطیہ ہے اور اس شخص کو ملتا ہے جسکو وہ مرہمت فرماتا ہے۔ انکی ملنے میں انسانی کوششوں کا دخل نہیں ہوتا۔ سورة انعام میں ارشادِ باری تعالی ہے:
 اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اسے اپنی پیغمبری کے لئے سپرد کرنی ہے۔
(۳) تعلیمات من جانب اللہ
پیغمبر دین اور شریعت کے نام پر جو کچھ انسانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ وہ ہدایت ربانی کے تابع ہوتے ہیں نہ خود انکی کوئی مرضی ہوتی ہے۔ وہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جسکا انکو حکم دیا جاتا ہے۔
 وہ اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ وہی کہتا ہے جو خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
(یعنی) جوکچھ (حکم) رسول تمہیں دے اسے مان لو اور جس (چیز) سے منع کردے اس سے رک جاو۔
(۴) عصمت
نبی معصوم ہوتے ہیں ،ان سے نہ ا فعال کی غلطیاں ہوتیں ہیں اور نہ اخلاق و اعمال کی لغزشیں جس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کی فکر و بصیرت بھی کامل ہوتی ہے اور اسکی اخلاقی قوت بھی ایک طرف تو وہ احکام الہی کا منشا سمجھنے اور ان سے مزید احکام نکالنے کی بہترین صلاحیتیں رکھتا ہے۔ دوسری طرف اسے اپنے نفس پر پورا قابو حاصل ہوتا ہے اور اسکی اخلاقی حس اسکا خوفِ خدا اور اسکا اندیشہ اس قدر ترقی یافتہ ہوتے ہیں کہ گناہ کے محرکات سر اٹھا ہی نہیں سکتے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس پر اللہ کی خصوصی نگرانی رہتی ہے اور یہی نگرانی انہیں اخلاق و عمل کی کوتاہیوں سے بچائے رکھتی ہے۔ اور اس طرح اس کا ہر قول اور ہر عمل صحیح ہوتا ہے اور پوری زندگی ایک صاف اور روشن آبگینے کی طرح ہوتی ہے جسے خالق کائنات نے انسانوں کے لئے اس وقت مثالی نمونہ مقرر فرمایا ہے۔

ہر قوم کے لئے نبی

ان باتوں کے علاوہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انبیاءہر قوم پر بھیجے گئے ہیں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
 کوئی بھی ایسی قوم نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے والا (رسول) نہ آیا ہو۔
اس کی وجہ ظاہر ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب ایک مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اللہ کی بندگی سب کا فریضہ ہے اور آخرت میں اس فرض کے مطابق ہر ایک سے پوچھ گچھ ہوگی۔
ان تمام انبیاءکو ماننا ہر مسلمان کا فرض ہے اور نہ صرف ماننا بلکہ ان کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔

رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی خصوصیات

حضرت آدم ؑ سے نبوت کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ خاتم النبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ختم ہوا۔ اللہ تعالی نے پہلے انبیاءکو علیحدہ علیحدہ کمالات عطا فرمائے تھے۔ نبی آخری زماں کی ذات میں وہ تمام شامل کردئیے۔ رسالتِ محمد بڑی نمایاں خصوصیات رکھتی ہے۔ جن میں سے چند یہ ہیں:
(۱) عمومیت
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آنے والے انبیاءکی نبوت کسی خاص قوم یا ملک کے لئے ہوئی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہے۔ ارشادِ ربانی ہے کہ:
 اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تو کہہ اے لوگوں میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔
(۲) پہلی شریعتوں کا نسخہ
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا۔ اب صرف شریعتِ محمدی پر عمل کیا جائے گا۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ:
اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
(۳) کا ملیت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کے دین کی تکمیل ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دینِ کامل عطا فرمایاگیا جو تمام انسانوں کے لئے کافی ہے۔ اس لئے اب کسی اور دین کی ضرورت نہیں رہی۔ سورة المائدہ میں آتا ہے کہ:
 آج میں نے مکمل کردیا تمہارے لئے دین تمہارا اور پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا تمہارے واسطے دینِ اسلام کو۔
(۴) قرآنی آیات
اللہ کے رسول کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے اہلِ ایمان کو زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا۔ یہ ضابطہ حیات نہ صرف مکمل ہے بلکہ انتہائی پراثر بھی ہے۔
آیات قرآنی اپنی اندر وہ اعجاز رکھتی ہے کہ اس کے آگے تمام طاقتیں جھوٹی رہ جاتی ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:
 اگر یہ قرآن پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ زرہ زرہ ہوجاتا۔
یہ کلام ایسا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قرآن کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ کی  مخلوق پر۔
(۵) کتاب و دانائی
اللہ نے آپ کو ایک ایسی کتاب عطافرمائی جو رہتی دنیا تک اپنی اصل شکل میں باقی رہے گی۔ اور جس کی کروڑوں بندگانِ خدا ہر صبح و شام تلاوت کرتے ہیں۔ اس کی اس شان کی بناءپر اس کا نام قرآن مجید رکھا گیا اور اس کی حفاظت کا خود ذات باری تعالی نے ذمہ لیا۔
 بے شک ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
اس میں انسانوں کے لئے ایسی ہدایت سمودی گئی ہیں جو زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر دور میں رہنمائی کرتی رہے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ قرآنی آیات لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور انہیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ یہ ایسی آیات ہیں کہ ان کا مقابلہ دنیا کی کوئی زبان یا لغت نہیں کرسکتی۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے آیات کی تشریح و وضاحت فرمائی۔ آیات کے رموز فرمائے۔ تاکہ لوگ کسی دقت کے بغیر قرآن پر عمل پیرا ہوں۔ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ:
ہم نے آپ کو اسلئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ آیات کے مطالب بیان کرسکیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ:
 حقیقت یہ ہے کہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔

ختمِ نبوت

ختمِ نبوت کے معنی ہیں کہ محمد عربی ﷺ اللہ کے آکری نبی او ر رسول ہیں آپ کے بعد اب قیامت تک کوٗی نبی نہیں آئے گا۔ ختم نبوت  کی سب سے پہلی دلیل تو سورةاحزاب کی آیت ہی ہے۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا ذکر ہے لیکن ہمیں بہت سی احادیث اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حدیثِ مبارک ہے کہ:
میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاءکی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کنارے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی اور وہ میں ہوں۔
ایک اور جگہ حدیث مےں ارشاد ہوتا ہے کہ:
 میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
ختمِ نبوت دراصل تکمیل اسلام ہی ہے اور جب اللہ نے اپنے دین کی تکمیل کردی تو اس کے نبوت کے سلسلے پراختتام  کی مہر لگا دی اور ایک جامع مکمل دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک پہنچا کر نبوت کے طویل سلسلے کا اختتام کردیا۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تمہارے لئے اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند فرمایا۔
سورة عمران میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
ہم نے تم کو امت ِ وسط ( درمیانی امت ) بناکر بھیجا تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔
ان آیات کی رو سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے نبی کے ذریعے سے اپنے دین کی تکمیل کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت آئندہ تمام نسلوں کے لئے کافی ہے۔ اس کے علاوہ حفاظتِ قرآ ن کے سلسلے میں جو آیت ہمیں ملتی ہے۔ وہ بھی ختمِ نبوت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
 ہم نے ایک ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
ثابت یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے دین کی تکمیل کے بعد اسکی حفاظت کا وعدہ بھی کرلیا تو بعد میں رسالت کی ضرورت باقی نہ رہی۔ لہذا رسالت کے سلسلے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں اور آپ کو یہ لقب قرآن ہی نے دیا ہے۔ لہذا ختم نبوت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور ہمارا اس پر ایمان لازمی ہے اور جوشخص ختمِ نبوت کا اقرار نہیں کرتا اسے شریعت اور ملکی قانون کافر کا درجہ دیتی ہے اوراس کے دائرہ اسلام سے خارج  ہونے میں پوری امت کا اجماع ہے ۔



عقیدہ توحید

عقیدہ توحید

کہو اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسرہے۔)سورہ الاخلاص )
 مندرجہ بالا سورة قرآ ن مجید کی وہ مختصر سورة ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ اس سورة کی ہر آیت میں عقیدہ توحید کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔ اور ہر حوالے سے خدائے ذوالجلال کو احد قرار دیا ہے۔ اس سورة کی ابتداءمیں جو مخاطبانہ اندازِ بیان اختیار کیا ہے وہ اس لئے کہ مسلمان پہلے اپنے اندر عقیدہ توحید کو پختہ کریں پھر اسلام کی باقی تعلیمات پر عمل کریں۔ اس میں ہر ذی شعور اور صاحب عقل انسان کو توحید کا درسِ عام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم کلمہ طیبہ پر غور کریں تو اس سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
 ترجمہ : نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
یعنی اسلام کا باب اسلام کی تعلیمات اور تمام معاملات کا نچوڑ توحید سے شروع ہوتا ہے اور توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔

توحید کے لغوی ا ور شرعی معنی

توحید کے لغوی معنی ایک ماننا اور ایک جاننا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں توحیدا ورعقیدہتوحید یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ذات و صفات میں ایک مانا جائے اور اس کے تمام احکامات پر سختی سے عمل کیا جائے۔

تمام مذاہب کی تلقین

حضرت آدم ؑ سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی پیغمبرانِ دین گزرے ہیں وہ سب اللہ کی طرف سے  توحید ہی کا پیغام لے کر دنیا میں تشریف لائے ۔  سب کا مقصد یہ تھا کہ لوگاللہ وحدہ لا شریک  کی  خدا ئی کا اعتراف کریں اور اپنے اندا عقیدہ توحید کو پختہ کریں۔

الہ کا مفہوم

 قرآن مجید کی رو سے الہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جو تمام حلقہ زندگانی میں خودمختار ہو، مطلقِ کل ہو، رازق ہو،اور معبودہو یعنی صرف اسی کی عباد و بندگی کی جائے ۔ کلمہ طیبہ کے لفظ میں پوشیدگی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے معنی وہیں ہیں جو ہندو مذہب میں دیوتا، عیسائیت میں گاڈ (God)اور دیگر مذاہب میں خدا کا ہے۔ کلمہ نے بیان کیا کہ الہ ایک ایسی بابرکت ذات ہے جس کا اسمِ مبارک اللہ ہے۔ یعنی اس وسیع و عریض کائنات میں سوائے اللہ کے اور کوئی ذات ایسی نہیں جو پوجنے کے لائق ہو۔
تم اللہ کے سوا جسے پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ اللہ کے یہاں سے رزق مانگو اور اسی طرح کی عبادت کرو اس کا شکر ادا کرو اور اسی کی طرف پلٹائے جاو گے۔
 اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہ بناو اور رب تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی۔

توحید کے دلائل

اگر کوئی صاحب عقل اور ذی شعور انسان اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالے اور ذرا سا غوروفکر سے کام لے تو باآسانی عقیدہ توحید کو سمجھ سکتا ہے۔ حالات و واقعات اس خوبصورتی سے توحید کا درس دیتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص اس پر ایمان نہ لاتا اور اللہ کے ہونے سے انکار کرتا ہے تو اس سے زیادہ بیوقوف اور محروم اور کوئی نہیں۔
(۱) وسیع و عریض نظامِ کائنات
سورة ال عمران میں ارشادِ باری تعالی ہے:
 بے شک آسمان اور زمین کا بنانا دن اور رات کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقل مند لوگوں کے لئے۔
اگر ہم اس وسیع و عریض کائنات پر غور کریں اور اس سسٹم کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات نہایت وسیع ہے۔ ہمارے سامنے تو صرف یہ زمین ہے جس کی وسعت کا ثبوت دینے کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ جدید سہولتوں کے استعمال کے باوجود اس کے سفر میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ پھر اگر ہم سورج پر نظر ڈالیں جو زمین سے ہزاروں سال کے فاصلے پر ہے اور اسی طرح دیگر سیارے جن میں سے کچھ  زمین کے برابر، کچھ چھوٹے اور کچھ اس سے بھی بڑے ہیں۔ یہ تمام دنیا و سورج اور دیگر سیارے ایک ہی گلیکسی (Galaxy) میں موجود ہیں۔ پھر اس جیسی اربوں (Galaxies) اسی ایک آسمان میں سموئی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے اس کائنات میں سات آسمان ہیں اگر ہم ذرا دیر کو سوچیں کہ اس وسیع و عریض نظام جس میں ذرا برابر بھی نقص نہیں ہے ایک سے زائد خدا چلارہے ہوتے تو یہ سب پل بھر میں تباہ ہوجاتا۔ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو ایک ہی قوت ہوسکتی ہے۔
 کیا ان لوگوں نے نظر اٹھا کر اپنے اوپر آسمان نہیں دیکھا ہم نے اس کو کیسے سجایا اور اس کے منظر کو کس طرح سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں اور اس طرح زمین پر غور کرو ہم نے اس کو فرش کی طرح پھیلا دیا اور اس پر پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے۔ پھر اس میں قسم قسم کی نباتا اگائی بصیرت، ہدایت اور یاددہانی کا سامان ہے یہ اور اس بندے کے لئے جو حق کی طرف رجوع ہو۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالی ہے:
اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی جسے پھر سات سمندر روشنائی مہیا کرے پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہونگی۔
                                                                        بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

(۲) علوم و فنون کی معراج - توحید
اور وہ آسمان و زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اسکے لئے صرف یہی حکم دیتا ہے کہ ہوجاو تو وہ ہوجاتی ہے۔
 جدید سائنس اور علوم دورِ حاضر میں اپنی معراج کو پا چکیں ہیں۔ یہ تمام علوم و فنون آج اس نتیجہ پر پہنچ چکیں ہیں کہ اللہ تعالی کا نظامِ قدرت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثال کے طور پر فزکس کی رو سے کائنات کا ہر زرہ جمال چھوٹے چھوٹے (atoms) یا (Molecules) سے بنا ہے۔ ان (atoms) میں (electrons) پائے جاتے ہیں جو ایک مدارکے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہ بات انسانی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جبکہ اسلام نے قدرت کا یہ طرز’ عمل بہت پہلے واضح کردیا تھا۔ اسلام نے حج میں طوافِ کعبہ کا طریقہ متعین کیا۔ وہ تمام ان اشیاء سے مطابقت رکھتا ہے جو ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور (electrons) بھی (Molecules) میں یہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام حقائق و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی ذات ایک الہ ہی ہے اور اسی کا نظام قدرت کی ہر شے پر نافذ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑ سکے اور رات دن سے پہلے آسکتی ہے یہ سب ایک ہی دائرے میں تیر رہے ہیں۔
(۳) پیمانہ فکر (اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے؟)
 اگر کسی کمپنی کو ایک سے زیادہ مالکان چلائیں تو عام مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہی چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں کی شکل اختیار کرلیتے ہےں۔ غرض اس نظام کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
 خود ہی سوچئے کہ اگر اس زمین و آسمان کو چلانے والے ایک سے زائد خدا ہوتے تو کیا اس کرہ ارض میں انسانوں اور دیگر مخلوقات سکون و چین کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور کیا نظام کائنات بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ بعض مذاہب ہیں تو یہ حال ہے کہ ان کا کھانے پینے کا الگ خدا ہے، بارش کا الگ اور دوسرے معاملات کا الگ خدا۔ غرض ہر شعبہ زندگانی کا ایک الگ اور نیا خدا متعین ہے اور تمام خدا ایک دوسرے کے محتاج کی وجہ سے اپنی مرضی سے کوئی بھی کام نہیں کرسکتے غرض انسانی فکر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کائنات کو چلانے والے خداوں کی تعداد ایک سے زائد ہونا ناممکن ہے۔
سورة الانبیاءمیں ارشاد ہوتا ہے:
اگر دونوں (زمین و آسمان) کو چلانے والے اللہ تعالی کے علاوہ معبود ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان) میں فساد برپا ہوجاتا۔

شرک

شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات میں کسی دوسرے کو حصہ دار یا ساتھی ٹھہرایا جائے۔ قرآن مجید میں شرک کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے:
بے شک شرک بہت بڑا بھاری ظلم ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
 اللہ یہ بات معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے۔
قرآن مجید کی رو سے شرک کی تین اقسام ہیں:
(۱) ذات میں شرک
(۲) صفات میں شرک
(۳) صفات کے تقاضوں میں شرک
صفات کے تقاضوں میں شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی جن خصوصیات کا مالک ہے ان کے علاوہ کسی اور کو ان خصوصیات کا ساجھی ٹھہرایا جائے۔ اسی سے مدد طلب کی جائے اور اس کی بندگی و غلامی کی جائے۔ صفات کے تقاضوں میں
شرک علماءکرام کے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
اور پکڑتے ہیں اللہ کے سوا کہ شاید ان کی مدد کریں۔ نہ کرسکیں گے ان کی مدد اور یہ ان کی فوج در فوج پکڑی جائے گی۔
سورة ھود میں ارشادِ باری تعالی ہے:
خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

عقیدہ توحید کے اثرات

 توحید وہ عقیدہ ہے جس پر ایمان رکھتے ہوئے انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے اور اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتیں ہیں۔
عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
(۱) اطمینانِ قلب و روح
 جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ اس کا معبود ایک ہے، رازق ایک ہے اور وہ تمام اشیاء پر قدرت رکھتا ہے تو وہ یکسوئی کے ساتھ اسی ایک معبود کی عبادت کرتا ہے ۔ اس خالص بندگی سے اسے جو امید  اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے وہ اسے زندگی کی شاہراہ پر رواں رکھتا ہے اور وہ آسانی سے اپنی زندگی کامنشاءپالیتا ہے۔
(۲) خودداری
 معبود واحد کا یقین انسانی شخصیت میں خودداری پیدا کرتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا پالنے والے اللہ ہے اس لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عزت افروز زندگی بسر کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:
اپنا منہ سب کی طرف سے پھیر کر دین فطرت کی طرف کرلو۔
(۳) پاکیزگی نفس
عقیدہ توحید پر پختہ یقین انسان کو اپنے نفس کی حفاظت پر آمادہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قربِ الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی و تقوی کے اضافے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
(۴) بہادری
 جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ وہ ایک اللہ کا بندہ ہے اور وہی اللہ اس کی حفاظت کررہا ہے تو اس میں بہادری اور جانثاری کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہی مردِ مومن جب میدانِ عمل مین قدم رکھتا ہی تو یہ بہادری اسے اپنے سے دس گنا طاقت کے دشمن سے لڑنے پر آمادہ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے کم تعداد کے باوجود کفارومشرکین کی بڑی بڑی فوجوں کو شکستِ فاش دی اور غزوات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

حرفِ آخر

اسلام نے اسی عقیدے کو بنیاد بنا کر تمام  عبادات (نماز و روزے ) کی ابتدا میں دعا سکھائی ہے:
سب تعریفیں تمام جہانوں  کے رب کے لئے ہیں جو نہایت رحمن و رحیم ہے۔ اے اللہ! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ دکھادے تو ہم کو سیدھا راستہ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ناکہ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے غضب کیا۔ (آمین!)



اسوہ حسنہﷺ

اسوہ حسنہﷺ

حرفِ آغاز

          خدائے بزرگ و برتر نے زمین کو انسانیت کی آماجگاہ بنادیا اور کن فیکون سے تخلیقِ کائنات کا کام انجام دیا اور طرح طرح کی مخلوقات بنائیں مگر انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا۔ اب انسانوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے لئے انبیاءکا سلسلہ شروع ہوا۔ جن کو فضائل، اخلاق، عصمت و پاکیزگی، تقوی، شرم و حیا، احسان و کرم، عفودرگزر، صبروتحمل اور ایثارو قربانی کا فریضہ سونپا گیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات محفوظ ہے

             یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا تمام مشہور لوگوں کے بارے میں جو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں بہت کم جانتی ہے۔ مثلاً تمام انبیاءکے تو نام تک سے لوگ واقف نہیں ہیں۔ اور چند انبیاءکرام جنہیں لوگ جانتے ہیں ان کے حالات قرآن مجید اور دوسری مذہبی کتب میں ناکافی ہےں اور اسی طرح عظیم شخصیتوں کے حالات ان کی کتابِ حیات سے بہت کم معلوم ہوئے۔
لیکن اگر پوری تاریخ عالم میں کوئی زندگی پوری محفوظ ہے تو وہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ آپ کی حیاتِ پاک کے تمام واقعات ایک ایک جزئیات کے ساتھ اسطرح جمع کئے گئے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک قول و فعل دیانت داری کے ساتھ آج تک محفوظ ہے۔ حدیث کو ہی لئجئے تو دنیا کی کوئی زبان اور کوئی قوم فنِ حدیث جیسا ادب پیش نہیں کرسکتی۔

حفاظتِ حیاتِ نبی کی وجہ

آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی تمام جزئیات کے ساتھ موجود ہے اور رہے گی تو اس کا جواب قرآن پاک اپنی ایک آیت میں پیش کرتا ہے:
                                         تم لوگوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
      پوری انسانیت کے لئے اگر کسی کی زندگی معیار اور نمونہ ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ اسی لئے اس کو مکمل طور طر اللہ نے محفوظ کرلیا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ پاک کو محفوظ رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ کامل نمونہ بس یہی ایک ذات ہے اور جس معاشرے یا فرد میں اس زندگی کا نمونہ موجود ہے وہاں کی فلاح اور نیکی کے پھول کھلتے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ رضہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے ہیں؟ انہوں نے اس میدان میں اپنے آپ کو عاجزو مجبور پاکر کہہ دیا:
کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جوکچھ قرآن میں ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک میں ہے۔

انبیاءکے اخلاق کا مجموعہ

       حضوراکرمصلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک نبی ہی نہیں بلکہ تمام انبیاءکے اوصاف کا مجموعہ تھے۔ حضرت موسیٰ عہ کے معجزات، حضرت عیسیٰ عہ کی شفائ، حضرت یوسف عہ کا حسن و جمال، حضرت زکریا عہ کی حمدوثنائ، حضرت داود عہ اور حضرت ایوب عہ کا صبروشکر، حضرت ابراہیم عہ کی قربانی اور ہجرت ، حضرت اسماعیل عہ کا صبر اور ایمانداری کے علاوہ تمام انبیاع کی صرف ایک شخص کی ذات میں جمع ہوگئیں تھیں۔
بقول شاعر
حسنِ یوسف، دمِ عیسی یدِ بیضی داری
  آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
      آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مکارمِ اخلاق کی جملہ اوصاف کا مجموعہ تھی۔ کون سی عادی اور اخلاق تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہ تھا۔ کافر ہو یا مسلمان، امیر ہو یا غریب، سپہ سالار ہو یا قاضی، باپ ہویا شوہر، تاجر ہو یا حاکم غرض سب کے لئے آپ کے اخلاق نمونہ کامل ہیں۔ اللہ کا ارشاد بالکل بجا ہے کہ:
اے ایمان والو! تمہارا رسول جو چیز دے اسے خوشی سے قبول کرلو اور جس سے تمہیں روکے اس رک جاو۔

رحمتِ عالمﷺ

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
                  صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔
    اس سے ظاہر ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں، انسانوں اور قوموں کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت اور رسالت، زمان و مکاں کی قید سے آزادی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و نبوت کامل ہے اور ہر انسان کے لئے عام ہے۔ سب کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات رحمت کا سایہ تھی۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ:
لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مشرکین کے لئے بدعا کیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بدعا کے لئے نہیں بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔

صادق و امین

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و امانت کے وہ لوگ بھی معترف تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے۔ قریش نے باوجود تمام عداوت و سنگدلی کے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی کا زمانہ اس قدر پاکیزگی، شرافت اور صداقت کے ساتھ گزرا کہ نبوت سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کا لقب دے دیا گیا تھا۔ قریش نے طرح طرح سے آپ کو جھٹلایا مگر نجاشی کا دربار ہو یا مکہ کی گلیاں، ابو سفیان ہو یا ابو جہل سب ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کی گوای دیتے تھے۔

سخاوت و فیاضی

جودوسخا کا یہ عالم تھا کہ گھر میں آٹے کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہ تھی مگر سائل کو سارا آٹا عطا کردیا۔ اسی طرح ایک مہمان کو بکری کا سارا دودھ پلا دیا ۔ کئی روز کے فاقوں کے باوجود گھر میں ذراسا بھی کچھ ہوتا تو سائل کو عطا کردیتے۔ گھر میں اس وقت تک نہ جاتے جب تک سائل کو گھر میں رکھی ہوئی نقد رقم یا خیرات نہ کردی جاتی۔ اکثر اشرفیاں اور مال و دولت خراج کی شکل میں آتیں تو سب تقسیم کرکے دامن جھاڑ کر کھڑے ہوجاتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے خود فقیرانہ زندگی بسر کرتے اور سخاوت میں بادشاہوں کو شرمندہ کرتے تھے۔

عفوودرگزر

دشمن سے اپنا انتقام لینا انسانی فطرت ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عفوودرگزر سے کام لیتے تھے۔ یہاں تک کہ بدترین دشمن، کافروں اور مشرکوں تک کو معاف کیا اور ان سے کہیں انتقام نہ لیا بلکہ ان کے حق میں دعا بھی کی۔ غزوہ احد میں زخمی ہوئے مگر معاف کیا۔ طائف میں جسِ مبارک خون سے لہولہان ہوگیا۔ مگر ان کو بھی معاف کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا اور فرمایا:
                                                 آج تم پر کوئی الزام نہیں۔
مشرکوں کے لئے بھی کبھی بددعا نہ کی بلکہ یہ فرمایا:
                          میں لعنت کرنے نہیں بلکہ رحمت کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔

احسان مندی

ہمیشہ احسان کا بدلہ احسان سے دیتے تھے۔ نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے ایک دفعہ فکے ساتھ بہت زیادہ حسنِ سلوک کیا۔

خاکساری، خوش خلقی و سادگی

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اپنی ذات کو دوسروں سے برتر اور بلند نہیں سمجھتے تھے۔ غرور و تکبر کسی قسم کی برائی آپ کو چھو کر بھی بہ گزری تھی۔ بادشاہوں اور حاکموں کو فرمان بھیجنے والا سادگی و خاکساری کا پیکر ہے۔ کئی کئی دن فاقے کرتا ہے اپنے ہاتھ سے مالِ غنیمت تقسیم کرتا ہے اور خود محنت و مشقت سے اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ یہ اس شخص کا پیکر ہے جس نے غرض ساری دنیا پر احسانِ عظیم کیے مگر کبھی کسی کا احسان نہیں اٹھایا۔

غلاموں، یتیموں اور ناداروں کا والی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کرنے کی تلقین کی اور فرمایا:
                            جو خود کھاو انہیں بھی کھلاو اور جو خود پہنو وہی انہیں بھی پہناو۔
ایک اور جگہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
                                       غلاموں کو دن میں ستر دفعہ معاف کرو۔
        یتیموں اور ناداروں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی ہی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان سے بے حد اچھا سلوک کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
                                              مجھے مسکین زندہ رکھ، مسکین اٹھا اور ان کے ساتھ میرا حشر کر۔

غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک

             آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں سے بھی عزت، نرمی اور محبت کا سلوک کرتے تھے۔ اکثر یہودی کافر اور مشرک آپ کے پاس آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بداخلاق سے پیش آتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن جبیں پر بھی ملال کی گرد نہیں نظر نہیں آئی بلکہ ان کے لئے فرماتے تھے کہ:
                                    کوئی مسلمان کسی غیر مسلم پر ظلم کرے گا تو خدا کی عدالت میں قائم ہونے والے والے مقدمے میں غیرمسلم کا وکیل بن کر کھڑا ہوں گا۔

عورتوں، بچوں اور حیوانات کے ساتھ سلوک

عورتوں کو ذلت، ظلم و ستم کے پنجے سے آزادکیا ان کے حقوق مقرر کئے اور ہر حیثیت سے ان کا درجہ بلند فرمایا۔
ارشادِ نبوی ہے کہ:
                                دنیا کی بہترین متاع نیک کردار خاتون ہے۔
ایک اور جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورت کی عظمت بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
                                    جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو خاص توجہ اور محبت دیتے تھے اکثر راہ چلتے بچوں کو سلام کرتے اور اپنی سواری پر بٹھا لیتے۔ موسم کا سب سے چھوٹا پھل سب سے چھوٹے بچے کو عطا کرتے تھے۔ حیوانات پر ظلم کرنا، ان کو بھوکا رکھنا اور ضرورت سے زیادہ کام لینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند تھا۔

عدل و انصاف

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
                                 اے مسلمانوں! عدل و انصاف کے ساتھ گواہی دیا کرو۔
اکثر غیر مسلموں کے مقدمے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف سے کام لے کر ان کے حق میں فیصلہ فرمادیا کرتے تھے۔ جو سزا مسلمانوں کے لئے تھی وہی غیر مسلم کے لئے بھی تھی۔ غیر مسلم پر زیادتی عاقبت کی بربادی کا سبب ہے۔

صبروتحمل

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبروتحمل کا نمونہ تھی۔ کفار نے ظلم و ستم کی حد کردی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صبروتحمل کی حد کردی۔ ہجرت کی تو صبر کیا، دشمن کی گالیاں سنیں تو تحمل کا مظاہرہ کیا۔ جنگ ہو یا امن، خوشحالی ہو یا بدحالی، راحت ہو یا مصیبت غرضیکہ صبروتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ خوفِ خدا اور قربِ الہی
خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ تیز ہوا بھی چلتی تو چہرہ فق ہوجاتا۔ اس طرح دعا مانگتے جیسے کوئی بھکاری ہاتھ پھیلارہا ہو۔ اکثر نماز میں طویل صورتیں پڑھتے اور خوفِ خدا سے روتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوفِ خدا رکھنے والے اور مغفرت طلب کرنے والے بندے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ:
                                                       میں خدا سے سب سے زیادہ ڈرانے والا ہوں۔
قربِ الہی کا یہ عالم تھا کہ شب معراج سورة المنتہی کو پیچھے چھوڑ دیا اور سماعت کا یہ عالم تھا کہ لوح محفوظ پر قلم چلنے کی آواز سنی۔

پاکیزگی کردار

حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن، جوانی اور نبوت کے بعد کی زندگی ایسی لطیف، پاک و صاف تھی کہ عرب معاشرے کی غلاظت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ پھولوں کی پتیاں بہت نازک اور پاک و صاف ہوتی ہےں۔ قوس قزاح بہ اچھوتی اور حسین ہوتی ہے چاندنی بے حد اجلی اور بے داغ نظر آتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان سب چیزوں سے زیادہ حسین اور پاکیزہ تھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کرسکتی تھی۔ مکے میں جگہ جگہ اخلاق سوز کام ہوتے تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن اس طرح صاف و شفاف تھا جیسے کسی کا دامن پانی میں جانے کے باوجود خشک اور صاف ستھرا رہے۔ آپ انسانِ کامل تھے۔ اگر ہم دین و دنیا کی فلاح اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی تقلید کرنی چاہئے



Flickr