بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Tuesday, 13 December 2011

قرآن مجيد اور اس کی حفاظت


قرآن مجيد اور اس کی حفاظت
یہ خدا کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ میزان اور فرقان ہے٦٣؎ اور پہلی کتابوں کے لیے اِس کی حیثیت ایک ‘مہیمن’ کی ہے۔ یہ ‘ھیمن فلان علی کذا’ سے بنا ہوا اسم صفت ہے جو محافظ اور نگران کے معنی میں آتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کتاب الٰہی کا اصل قابل اعتماد نسخہ قرآن ہی ہے، لہٰذا دین کے معاملے میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اب اِسی کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ، فَاحْکُمْ بَيْْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ.(المائد٥: ٤٨)
اور (اے پیغمبر)، ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف حق کے ساتھ اتاری ہے، اُس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے اور اُس کے لیے مہیمن بنا کر، اِس لیے تم اِن کے درمیان اُس ہدایت کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کی ہے اور اُس حق کو چھوڑ کر جو تمھارے پاس آ چکا ہے، اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔
                    اِس کی ١١٤ سورتیں ہیں جن میں سے زیادہ تر اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مراحل دعوت کی ترتیب سے اُنھیں سات ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اِس کی زبان عربی ہے اور اِسے جبریل امین نے اللہ کے حکم سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل کیا ہے۔ آپ نے اِسے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا اور اِس سے آگے یہ مسلمانوں کے اجماع اور قولی و تحریری تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ چنانچہ دنیا کے الہامی لٹریچر میں اب تنہا یہی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ جس طرح دی گئی، بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے بالکل اُسی طرح، اُسی زبان میں اور اُسی ترتیب کے ساتھ اِس وقت ہمارے پاس موجود ہے۔ اِس کا یہ تواتر خود ایک معجزہ ہے، اِس لیے کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کو اِس وقت بھی لاکھوں مسلمان الحمد سے والناس تک محض حافظے کی مدد سے زبانی سنا سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں اِس کی روایت کا یہ سلسلہ ایک دن کے لیے بھی منقطع نہیں ہوا۔ اِس سے صاف واضح ہے کہ اِس کی حفاظت کا یہ اہتمام خود پروردگار عالم کی طرف سے ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَه، لَحٰفِظُوْنَ. (الحجر١٥: ٩)
یہ یاد دہانی ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
  یہی حقیقت ایک دوسرے مقام پر اِس طرح بیان ہوئی ہے:
وَاِنَّه، لَکِتٰبٌ عَزِيْزٌ، لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِه، تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَکِيْمٍ حَمِيْدٍ.(حٰم السجده٤١: ٤١-٤٢)
اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے۔ اِس میں باطل نہ آگے سے داخل ہو سکتا ہے نہ اِس کے پیچھے سے ۔ یہ ایک صاحب حکمت اور ستودہ صفات ہستی کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری گئی ہے۔
                    قرآن کی حفاظت کے جن پہلووں کی طرف اِس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ  یہ ہیں:
ایک یہ کہ قرآن کے زمانہ نزول میں اللہ تعالیٰ نے اِس امر کا خاص اہتمام فرمایا کہ قرآن کی وحی میں شیاطین کوئی مداخلت نہ کر سکیں۔ یوں تو اِس نظام کائنات میں یہ مستقل اہتمام ہے کہ شیاطین ملأ اعلیٰ کی باتیں نہ سن سکیں، لیکن ... نزول قرآن کے زمانے میں یہ اہتمام خاص طور پر تھا کہ شیاطین وحی الٰہی میں کوئی مداخلت نہ کر پائیں تاکہ اُن کو قرآن میں اُس کے آگے سے(مِنْ بَيْنِ يَديْهِ) کچھ گھسانے کا موقع نہ مل سکے۔
                دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کام کے لیے اپنے جس فرشتے کو منتخب کیا، اُس کی صفت قرآن میں‘ذِی قُوَّةٍ’، مطاع، قوی، امین اور عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِيْنٍ’ وارد ہوئی ہے۔ یعنی وہ فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ ارواح خبیثہ اُس کو مغلوب نہیں کر سکتیں، وہ تما م فرشتوں کا سردار ہے، وہ کوئی چیز بھول نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امانت اُس کے حوالے کی جاتی ہے ، وہ اُس کو بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ اُس میں زیر زبر کا بھی فرق واقع ہو سکے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقرب ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے برتر ہے ـــــظاہر ہے کہ یہ اہتمام بھی اِسی لیے فرمایا گیا ہے کہ قرآن میں اُس کے منبع کی طرف سے کسی باطل کے گھسنے کا امکان باقی نہ رہے۔
                تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس امانت کو اٹھانے کے لیے جس بشر کو منتخب فرمایا، اول تو وہ ہر پہلو سے خود خیر الخلائق تھا، ثانیاً قرآن کو یاد رکھنے اور اُس کی حفاظت و ترتیب کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے تنہا اُس کے اوپر نہیں ڈالی، بلکہ یہ ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ چنانچہ سورہئ قیامہ میں فرمایا ہے:‘
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ، اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَه، وَقُرْاٰنَه،، فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَه،، ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه،’٦٤؎
(اور تم اِس قرآن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زبان کو تیز نہ چلاؤ، ہمارے اوپر ہے اِس کے جمع کرنے اور اِس کے سنانے کی ذمہ داری۔ تو جب ہم اِس کو سنا چکیں تو اِس سنانے کی پیروی کرو، پھر ہمارے ذمے ہے اِس کی وضاحت)۔
                روایات سے ثابت ہے کہ جتنا قرآن نازل ہو چکا ہوتا، اُس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقرب صحابہ یاد بھی رکھتے اور ہر رمضان میں حضرت جبریل کے ساتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا مذاکرہ بھی فرماتے رہتے تاکہ کسی سہو و نسیان کا اندیشہ نہ رہے اور یہ مذاکرہ اُس ترتیب کے مطابق ہوتا جس ترتیب پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کو مرتب کرنا پسند فرمایا۔ یہ بھی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک کے آخری رمضان میں یہ مذاکرہ دو مرتبہ فرمایا۔ پھر اِسی ترتیب اور اِسی قراء ت کے مطابق پورا قرآن ضبط تحریر میں لایا گیا اور بعد میں خلفاے راشدین نے اِسی کی نقلیں مملکت کے دوسرے شہروں میں بھجوائیں۔ یہ اہتمام پچھلے صحیفوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ تورات کے متعلق تو یہ علم بھی کسی کو نہیں ہے کہ اُس کے مختلف صحیفے کس زمانے میں اور کن لوگوں کے ہاتھوں مرتب ہوئے۔
                چوتھا یہ کہ قرآن اپنی فصاحت الفاظ اور بلاغت معنی کے اعتبار سے معجزہ ہے جس کے سبب سے کسی غیر کا کلام اُس کے ساتھ پیوند نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام بھی، باوجودیکہ آپ اِس قرآن کے لانے والے اور افصح العرب والعجم ہیں، اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اِس وجہ سے اِس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی غیر کا کلام اُس کے ساتھ مخلوط ہو سکے۔ چنانچہ جن مدعیوں نے قرآن کا جواب پیش کرنے کی جسارت کی، اُن کی مز خرفات کے نمونے ادب اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ اُن کو قرآن کے مقابل میں رکھ کر موازنہ کر لیجیے، دونوں میں گہر اور پشیز کا فرق نظر آئے گا ـــــ اِس طرح گویا پیچھے سے بھی (وَمِنْ خَلْفِه) قرآن میں دراندازی کی راہ مسدود کر دی گئی ۔
 پانچواں یہ کہ قرآن کی حفاظت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی زبان کی حفاظت کا بھی قیامت تک کے لیے وعدہ فرما لیا۔ دوسرے آسمانی صحیفوں میں تو اُن کی اصل زبانیں مٹ جانے کے سبب سے بے شمار تحریفیں ترجموں کی راہ سے داخل ہو گئیں جن کا سراغ اب ناممکن ہے، لیکن قرآن کی اصل زبان محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ اِس وجہ سے ترجموں اور تفسیروں کی راہ سے اُس میں کسی باطل کے گھسنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اُس میں کسی باطل کو گھسانے کی کوشش کی جائے گی تو اہل علم اصل پر پرکھ کر اُس کو چھانٹ کر الگ کر سکتے ہیں۔ (تدبر قرآن٧/ ١١٢)

No comments:

Post a Comment

اپنا تبصرہ یہاں لکھیں

Flickr