ایمان مجمل اور ایمان مفصل کیا ہے؟
ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے :
1. ايمانِ مُجْمَل
2. ايمانِ مُفَصَّل
2. ايمانِ مُفَصَّل
اِیمانِ مُجْمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مُجْمَل کا معنی ہی ’’خلاصہ‘‘ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں،ایمانِ مُجْمَل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘
جبکہ ایمانِ مُفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایمانِ مُفَصَّل یہ ہے
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
’’میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر
اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
’’میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر
اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔
فرشتوں پر ایمان لانا۔
کتابوں پر ایمان لانا۔
رسولوں پر ایمان لانا۔
یومِ آخرت پر ایمان لانا۔
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔
فرشتوں پر ایمان لانا۔
کتابوں پر ایمان لانا۔
رسولوں پر ایمان لانا۔
یومِ آخرت پر ایمان لانا۔
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔
GREAT WORK SIR!
ReplyDeleteماشاء اللّٰہ
ReplyDeleteاسلام علیکم مجھے نہ تو ان الفاظ پر کوئی شک ہے نہ ہی اس بات پر شک کہ یہ درست نہ ہیں مگر یہ پھر بھی بدعت ہیں کیونکہ دین کو اللہ تعالٰی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ صاحب علم اس دنیا میں موجود نہ ہے اگر ان کے نزدیک اس کی ضرورت ہوتی تو مجھے پورا یقین ہے وہ اسی طرح پڑھاتے اور سکھاتے ۔یہ آئمہ اور محدثین میرے بنئ محتشم سے بڑھ کر نہ ہیں۔ان کےجوتے کی خاک کے بھی برابر نہ ہیں۔
ReplyDeleteجاہل انسان بدعتی انسان سب سے اوپر یہ لکھا ہے
Deleteائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے
اور جاہل انسان تو اپنی بونگیاں مار رہا ہے
ہمیں کسی بھی چیز کو سمجھنے کے لئے علمائے حق سے ہی سیکھنا پڑے گا سمجھنا پڑے گا
ڈائریکٹ ہم قرآن و حدیث سے نہیں سمجھ سکتے اور دوسری بات کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں
مگر سب عالم نہیں تھے نہ ہی سب نے احادیث روایت کی ہیں
اس لئے میں پھر آپ کو جاہل ہی کہوں گا
اور علمائے حق سے رابطہ کرنے کا مشورہ دوں گا
تا کہ آپ بدعت گمراہی سے نکل کر بدعت حسنہ میں آجائیں
بہت خوب فرمایا
ReplyDelete