بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Saturday, 17 December 2011

زکوٰۃ کا نصاب اور فائدے

زکوۃ کا نصاب اور فائدے

زکوٰۃ دینے کے فائدے
                        مال اور دولت سے انسان میں حرص، بخل، تکبر، تمرد اور فسق و فجور کی صفاتِ رذیلہ پیدا ہوتی ہیں۔ مالی عبادات کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے تاکہ انفاق فی سبیل اﷲ سے ان اخلاقی امراض کا ازالہ ہو اور انسان میں قناعت، جود و سخا، انکسار اور تقویٰ و حسن عمل کی اعلیٰ صفات پیدا ہوں۔      
                            ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے اموال سے زکوٰۃ وصول کر کے ان کے (قلب و ذہن) کا تزکیہ کیجئے‘‘ (توبہ)
 قرآن کی رو سے زکوٰۃ ادا کر کے مالدار، مفلس و نادار پر احسان نہیں کرتا بلکہ وہ حق دار کو اس کا وہ حق لوٹاتا ہے جو مال و دولت عطا کرنے والے ربِ کریم نے اس کے مال میں شامل کر رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ان (مال داروں) کے مال میں سائل اور مال سے محروم لوگوں کا حق ہے۔‘‘ (الذاریات: 19) گویا قرآن مجید کا پیغام یہ ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ حق تلفی کرنے والا، ظالم اور غاصب ہے، کیونکہ وہ نادار کے حق کو لوٹانے سے عملاً منکر ہے۔
وجوبِ زکوٰۃ
مالدار پر زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط یہ ہیں: مسلمان ہونا ، عاقل ہونا، بالغ ہونا، نصابِ شرعی کا مالک ہونا (یعنی صاحبِ نصاب ہونا) اور نصاب پر پورا ایک قمری سال گزر جانا۔
نصابِ زکوٰۃ
اس سے مراد وہ کم از کم مالیت ہے، جس کا مالک ہونے سے مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ اور نصابِ شرعی کی مقدار یہ ہے: 612.36 گرام چاندی یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم، یا مال تجارت جو اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہو یا 87.48 گرام سونا یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم یا مالِ تجارت جو اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو۔ آج کل چاندی اور سونے کے نصاب کی مالیت تقریباً ایک اور سات کی نسبت ہے۔ فقہائے کرام نے یہ کہا ہے کہ اگر اموال متفرق ہوں (یعنی کچھ سونا اور کچھ چاندی اور دیگر اموال) یا صرف چاندی تو چاندی ہی کے نصاب کا اعتبار ہو گا تاکہ ناداروں کو فائدہ ہو۔
سال گزرنے  کامفہوم
وجوبِ زکوٰۃ کے لیے ضروری ہے کہ مال پر سال گزر جائے۔ اسے فقہی اصطلاح میں ’’حولانِ حول‘‘ کہتے ہیں۔ شریعت کی رو سے جس دن کوئی بالغ مسلمان مرد یا عورت زندگی میں پہلی بار مندرجہ بالاتفصیل کے مطابق کم از کم نصاب کا مالک ہو جائے تو اسلامی کیلنڈر کی اسی تاریخ سے وہ ’’صاحبِ نصاب‘‘ قرار پاتا ہے لیکن اس پر اسی دن سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس نصاب پر اس کی ملکیت میں ایک پورا قمری سال گزر نہ جائے۔ لیکن یہ امر پیشِ نظر رہے کہ سال بھر کے دوران ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں کم از کم نصاب کا رہنا ضروری ہے، ہر مال پر(خواہ وہ نقد رقم ہو یا سونا چاندی کی صورت میں ہو یا صنعت و تجارت کا مال ہو) سال گزرنا زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے لازمی نہیں ہے۔ اگر مال کے ہر جز پر سال گزرنے کی شرط کو لازمی قرار دیا جائے تو تاجر حضرات کے لیے زکوٰۃ کی تشخیص تقریباً ناممکن العمل ہو جائے، کیونکہ مال کی آمد و خرچ کا سلسلہ روز جاری رہتا ہے، بلکہ تنخواہ دار آدمی بھی ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ پس انداز کرتا ہے۔ لہٰذا مال کے ہر حصے کی مدت الگ ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا تشریح کی روشنی میں زکوٰۃ کی تشخیص کی مقررہ تاریخ سے چند دن قبل بھی اگر کوئی مال ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں آ جائے تو اسے پہلے سے موجود مال میں شامل کر کے کل مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment

اپنا تبصرہ یہاں لکھیں

Flickr