بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Tuesday, 13 December 2011

شکر



شکر
اللہ تعالٰی کے ساتھ ہمارے تعلق کی سب سے پہلی بنیاد شکر ہے۔ شکر کا تعلق دل سے بھی ہے، زبان سے بھی اور عمل سے بھی ہے۔ دل کا شکر یہ ہے کہ آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں، اس کے بے نہایت احسانات اور اس کے ان گنت انعامات کے احساس و اعتراف کے جذبہ سے اس طرح لبریز رہے جس طرح ایک دودھیل بکری کا تھن دودھ سے لبریز رہتا ہے۔ یہ تمثیل ہم نے محض تمثیل کے مقصد سے نہیں اختیار کی ہے، بلکہ لفظ شکر کی لغوی حقیقت بھی کچھ اس سے ملتی جلتی ہے۔ دل جب اللہ تعالیٰ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز رہتا ہے تو جس طرح ذرا سی حرکت سے ایک لبریز ساغر چھلک جایا کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالٰی کی ہر چھوٹی یا بڑی نعمت کی یاد اور اس کے مشاہدے سے بندے کی زبان سے شکر کا کوئی کلمہ چھلک پڑتا ہے۔
 جس شخص کا دل اس طرح خدا کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز رہے اس کا اثر لازمی طور پر اس کے اعمال پر بھی پڑتا ہے۔ اس کو ہر وہ عمل دل سے محبوب ہو جاتا ہے جس سے اس جذبے کو تسکین حاصل ہو سکے۔ اور اسی کے برابر اس کو ہر اس عمل سے نفرت ہو جاتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی کسی ظاہری یا باطنی نعمت کی نا قدری ہو رہی ہو۔ کسی نعمت کی قدر کا حقیقی احساس اگر آدمی کے اندر موجود ہو تو وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس نعمت کو اپنے حقیقی منعم ہی کے منشاء کے خلاف استعمال کرے۔ اگر ایک کرم فرما ہمیں ایک ٹارچ عنایت کرے کہ ہم اس کی مدد سے اندھیرے کی ٹھوکروں سے بچ سکیں، ایک تلوار عنایت کرے کہ دشمن کے خطرات کی مدافعت کر سکیں، ایک سوار عنایت کرے کہ پیدل چلنے کی مشقت سے بچ سکیں تو کوئی انتہائی درجے کا کمینہ اور لئیم ہی ہو گا جو ان سارے اسباب و وسائل کو اسی کرم فرما کے گھر پر حملہ اور اسی کے زن و فرزند کو قتل کرنے میں استعمال کرے جس نے یہ اسباب و اسلحہ اس کو عنایت فرمائے۔ اسی طرح جس بندے کے اندر ان نعمتوں کا سچا احساس ہوتا ہے جو خدا نے اس کو عنایت کی ہیں، وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ ان نعمتوں کو وہ شیطان کی مقصد برآری میں خرچ کر لے۔ اسی حقیقت کی طرف حضرت عائشہؓ نے اپنے اس خط میں اشارہ فرمایا ہے، جو امیر معاویہؓ کو لکھا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ "جس شخص پر انعام ہوا ہو اس کے اوپر کم سے کم جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس انعام کو اسی کی نافرمانی کا ذریعہ نہ بنائے جس نے وہ انعام اس پر کیا ہے۔"
 اس شکر کے جذبے کو صحیح طو رپر بیدار رکھنے کے لیے چند باتیں نہایت ضروری ہیں:
پہلی تو یہ ہے کہ آدمی کو اس کے ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ملی ہوئی ہیں ان کو برابر نگاہ میں رکھنے کی کوشش کرے۔ انسان کے اندر یہ بڑی کمزوری ہے کہ اگر وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو وہ اس کے ذہن پر چوبیس گھنٹے مسلط رہتی ہے اور ہر کسی سے اس کا ذکر کرتا ہے، لیکن اللہ تعالٰی کی بے شمار نعمتیں جو اس کو ہر وقت حاصل ہیں ان سے وہ اس طرح غافل و بے پرواہ رہتا ہے گویا ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہین ہے۔ اگر آدمی کو نعمتوں کے نعمت ہونے اور نعمتوں سے بہرہ یاب ہونے کا کوئی احساس ہی نہ ہو تو وہ منعم کی قدر کیا کرے گا اور اس کے لیے اس کے اندر شکر و سپاس کا جذبہ کیا پیدا ہو گا۔ اس غفلت کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو اس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے ظاہر و باطن، دونوں میں بخشی ہیں، بلکہ ان کے مظاہر اس کائنات کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
                تنہائی میں کبھی کبھی غور کرتے کرتے وہ اس پہلو سے بھی سوچے کہ بالفرض یہ نعمتیں اس کو حاصل نہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟ یہ آنکھ جس سے وہ دیکھتا ہے اس سے وہ محروم ہوتا، یہ کان جس سے وہ سنتا ہے یہ بہرے ہوتے، یہ ہاتھ جن سے وہ زور آزمائی کرتا ہے شل ہوتے، یہ پاؤں جن سے وہ چلتا ہے مفلوج ہوتے تو اس کا حشر کیا ہوتا؟ اور پھر سب سے زیادہ اس بات پر دھیان کرے کہ یہ دماغ جس کی کارفرمائیوں پر وہ سب سے زیادہ نازاں ہے، خدانخواستہ یہ ماؤف ہوتا تو اس کی گت کیا بنتی؟
                دوسری ضروری بات یہ ہے کہ آدمی اس امر پر بھی ساتھ ہی ساتھ غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ہمیں بخشی ہیں بلا کسی استحقاق کے بخشی ہیں۔ نہ ہمارا خدا پر کوئی حق قائم تھا نہ ہم نے کسی نعمت کا اس کو معاوضہ ادا کیا ہے اور نہ کسی نعمت کا معاوضہ ادا کر سکتے ہیں۔ پھر وہ جب چاہے اپنی ہر نعمت کو ہم سے چھین سکتا ہے، کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ آج آپ کو تخت شاہی کی عظمتیں حاصل ہیں، کل وہ آُپ کے ہاتھ میں کاسہ گدائی پکڑا دے تو آپ اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے کبھی بھی ذلت و مصیبت میں پڑے ہوئے آدمی کو نظر انداز کرتے ہوئے گزر جانے کی کوشش نہ کیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ اسی حالت میں مبتلا کر دیتا یا آئندہ کر دے تو آپ کو اس چیز سے کون بچا سکے گا۔ دنیا میں مصیبت زدہ سے مصیبت زدہ او رمفلوک سے مفلوک آدمی جو آپ نے دیکھا ہو، یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ ٹھیک اس کی جگہ پر آپ کو کھڑا کر سکتا تھا اور اس کو آپ کی جگہ دے سکتا تھا، لیکن یہ اس کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ آپ کو اس سے نہایت بہتر حالت میں رکھا۔
                تیسری ضروری بات اپنے اندر شکر گزاری کا جذبہ بیدار رکھنے کے لیے یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ انہی لوگوں کو دیکھنے کی کوشش نہ کرے جو اپنے اسباب و وسائل اور اپنے حالات و ذرائع کے اعتبار سے اس سے بہتر حالت میں ہوں، بلکہ ان لوگوں کو بھی سامنے رکھ کر اپنا موازنہ کرتا رہے جو ہر پہلو سے اس سے فرو تر زندگی رکھتے ہیں۔ جو آدمی ہمیشہ اپنے سے بہتر حالات رکھنے والوں ہی پر نگاہ رکھتا ہے وہ ہمیشہ اپنی تقدیر سے شاکی اور اپنے رب سے بد گمان رہتا ہے۔ اس کے دل کو سچی خوشی کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر اس کو بہتر حالات بھی میسر آ جائیں جب بھی اس کا دل آسودہ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ یہ درجہ تو اس کو بہر حال حاصل ہونے سے رہا کہ اس آسمان کے نیچے کوئی شخص کسی اعتبار سے بھی اس سے بہتر حالت میں نہ رہے۔ اس وجہ سے خدا کی شکر گزاری کا صحیح حق ادا کرنے کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ آدمی ان لوگوں کے حالات پر نگاہ ڈالے جو اسی خدا کے بندے ہیں جس کا بندہ وہ ہے، لیکن ان لوگوں کو ان چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی حاصل نہیں ہے جو اس کو بڑی وسعت کے ساتھ حاصل ہیں۔
                حضرت سعدیؒ کی ایک حکایت اس حقیقت کو نہایت خوبی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اپنی سیرو سیاحت کے سلسلے میں وہ دمشق یا کسی اور شہر میں جب پہنچے تو ان کی جوتی پھٹ چکی تھی اور ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ نئی جوتی خرید سکیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اپنی اس غربت کے سبب سے میں دل میں نہایت ملول تھا اور بار بار یہ خیال ذہن میں پیدا ہو رہا تھا کہ اس فضل و کمال کے باوجود خدا نے مجھے اس حال میں رکھا ہے کہ میرے پاؤں میں جوتی بھی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں اسی گرفتگی کے ساتھ شہر کی مسجد میں داخل ہوا۔ وہاں پہنچا تو میری نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جس کے سرے سے پاؤں ہی نہیں تھے۔ اس کو دیکھتے ہی میں دفعۃً اپنے رب کے آگے سجدے میں گر پڑا کہ اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے جوتی نہیں تو پاؤں تو دیے ہیں۔ یہ بے چارہ تو سرے سے پاؤں ہی سے محروم ہے۔
حضرت سعدی نے اپنی اس سرگزشت میں نہایت خوبی کے ساتھ یہ بات سمجھا دی ہے کہ خدا کا شکر گزار بندہ بننے کے لیے دنیا کو کس نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔ جو لوگ دنیا کو سعدی ؒ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کو قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی وہ نشانیاں ملتی رہتی ہیں جو ان کو خدا کے شکر پر ابھارتی رہتی ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ کتنوں کے پاس پاؤں ہی نہیں ہیں، اپنی اس محرومی پر خدا سے شاکی رہتے ہیں۔ کہ ان کے پاس کار نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی خدا کی شکر گزاری کی توفیق نہیں پاتے۔

No comments:

Post a Comment

اپنا تبصرہ یہاں لکھیں

Flickr