بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں دینے کا نام بندگی ہے۔

Tuesday, 20 December 2011

عقیدہ کے معنی اور مفہوم

عقیدہ کے معنی اور مفہوم
1.                             عقیدے کی لغوی تعریف : عقیدہ دراصل لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ہیں کسی چیز کو باندھنا ،جیسے کہا جاتا ہے "اعتقدت کذا" (میں ایسا اعتقاد رکھتا ہوں) یعنی میں نے اسے (اس عقیدے کو) اپنے دل اور ضمیر سے باندھ لیا ہے ۔
لہذا عقیدہ : اس اعتقاد کو کہا جاتا ہے جو انسان رکھتا ہے ، کہا جاتا ہے : "عقیدۃ حسنة" (اچھا عقیدہ) ، یعنی : "سالمة من الشک" (شک سے پاک عقیدہ) ، عقیدہ در حقیقت دل کے عمل کا نام ہے ، اور وہ ہے دل کا کسی بات پرایمان رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا ۔
عقیدہ کی شرعی تعریف: اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر ،اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، یومِ آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھنا ، اور انہیں ارکانِ ایمان بھی کہا جاتا ہے۔
شریعت دوا قسام میں تقسیم ہوتی ہے : عقائد اور اعمال
عقائد :
عقائد ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق کیفیت ِعمل سے نہیں ہے ، مثلاً اللہ تعالی کی ربوبیت اور اس کی عبادت کے وجوب کا اعتقاد رکھنا، اسی طرح تمام مذکورہ ارکانِ ایمان کا اعتقاد رکھنا ، اور یہ "اصل" (بنیاد/جڑیں)بھی کہلاتے ہیں ۔ اعمال : اعمال کا تعلق کیفیت ِعمل سے ہے ، مثلاً نماز ، زکوۃ ، روزہ اور دیگر عملی احکامات ، یہ "فروع" (شاخیں)بھی کہلاتے ہیں ، کیونکہ یہ (فروع/شاخیں) ان عقائد (اصل/جڑوں) کی صحت یا فساد پر قائم ہوتے ہیں( )۔
لہذا صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے ، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
            ﴿ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَsبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴾ (الکہف: 110)
﴿ جسے بھی اپنے رب سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ﴾
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ (الزمر: 65)
﴿ یقیناً آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے ) کے تمام نبیوں ( کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلا شبہ آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین آپ زیاں کاروں میں سے ہوجائیں گے﴾
اور ارشاد باری تعالی ہے :
                   ﴿ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ* أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر: 2-3)
﴿ پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں ، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے ، خبردار ! اللہ تعالی ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے ﴾یہ اور اس مفہوم کی دیگر آیاتِ کریمہ جو کہ بہت زیادہ ہیں ، اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اعمال اسی وقت مقبول ہوں گے جب وہ شرک سے پاک ہوں،  کی اولین ترجیح عقیدے کی اصلاح رہی ۔ پس سب سے پہلے وہ اپنیoاسی لیے تمام رسولوں قوموں کو اس بات کی دعوت دیتے رہے کہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت جائے اور اللہ تعالی کے سوا ہر کسی کی عبادت ترک کی جائے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
                                              ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ ﴾ (النحل: 36)﴿ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ(لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں (کی عبادت) سے بچو ﴾
اور ہر رسول جب بھی اپنی قوم سے مخاطب ہوئے تو فرمایا :
                          ﴿ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ ﴾ (الاعراف: 59)
﴿ اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں ﴾
یہی بات نوح ، ہود ، صالح ، شعیب ، اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں سے فرمائی ۔
بعثت کے بعد نبی اکرم(ﷺ) مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک لوگوں کو توحید اور عقیدے کی اصلاح کی دعوت دیتے رہے ، اس لیے کہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ (حقیقی ) داعیان اور مصلحین نے ہر زمانے میں انبیاء کرام (علیہم السلام) کے اسی نقش قدم کی پیروی کی ہے۔ چناچہ وہ توحید اور عقیدےکی اصلاح کی دعوت سے اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں ، اس کے بعد دین کے دیگر احکامات کی پیروی کا حکم دیتے ہیں ۔

Saturday, 17 December 2011

زکوٰۃ کا نصاب اور فائدے

زکوۃ کا نصاب اور فائدے

زکوٰۃ دینے کے فائدے
                        مال اور دولت سے انسان میں حرص، بخل، تکبر، تمرد اور فسق و فجور کی صفاتِ رذیلہ پیدا ہوتی ہیں۔ مالی عبادات کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے تاکہ انفاق فی سبیل اﷲ سے ان اخلاقی امراض کا ازالہ ہو اور انسان میں قناعت، جود و سخا، انکسار اور تقویٰ و حسن عمل کی اعلیٰ صفات پیدا ہوں۔      
                            ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے اموال سے زکوٰۃ وصول کر کے ان کے (قلب و ذہن) کا تزکیہ کیجئے‘‘ (توبہ)
 قرآن کی رو سے زکوٰۃ ادا کر کے مالدار، مفلس و نادار پر احسان نہیں کرتا بلکہ وہ حق دار کو اس کا وہ حق لوٹاتا ہے جو مال و دولت عطا کرنے والے ربِ کریم نے اس کے مال میں شامل کر رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ان (مال داروں) کے مال میں سائل اور مال سے محروم لوگوں کا حق ہے۔‘‘ (الذاریات: 19) گویا قرآن مجید کا پیغام یہ ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ حق تلفی کرنے والا، ظالم اور غاصب ہے، کیونکہ وہ نادار کے حق کو لوٹانے سے عملاً منکر ہے۔
وجوبِ زکوٰۃ
مالدار پر زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط یہ ہیں: مسلمان ہونا ، عاقل ہونا، بالغ ہونا، نصابِ شرعی کا مالک ہونا (یعنی صاحبِ نصاب ہونا) اور نصاب پر پورا ایک قمری سال گزر جانا۔
نصابِ زکوٰۃ
اس سے مراد وہ کم از کم مالیت ہے، جس کا مالک ہونے سے مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ اور نصابِ شرعی کی مقدار یہ ہے: 612.36 گرام چاندی یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم، یا مال تجارت جو اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہو یا 87.48 گرام سونا یا اس کی رائج الوقت قیمت کے مساوی نقد رقم یا مالِ تجارت جو اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو۔ آج کل چاندی اور سونے کے نصاب کی مالیت تقریباً ایک اور سات کی نسبت ہے۔ فقہائے کرام نے یہ کہا ہے کہ اگر اموال متفرق ہوں (یعنی کچھ سونا اور کچھ چاندی اور دیگر اموال) یا صرف چاندی تو چاندی ہی کے نصاب کا اعتبار ہو گا تاکہ ناداروں کو فائدہ ہو۔
سال گزرنے  کامفہوم
وجوبِ زکوٰۃ کے لیے ضروری ہے کہ مال پر سال گزر جائے۔ اسے فقہی اصطلاح میں ’’حولانِ حول‘‘ کہتے ہیں۔ شریعت کی رو سے جس دن کوئی بالغ مسلمان مرد یا عورت زندگی میں پہلی بار مندرجہ بالاتفصیل کے مطابق کم از کم نصاب کا مالک ہو جائے تو اسلامی کیلنڈر کی اسی تاریخ سے وہ ’’صاحبِ نصاب‘‘ قرار پاتا ہے لیکن اس پر اسی دن سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس نصاب پر اس کی ملکیت میں ایک پورا قمری سال گزر نہ جائے۔ لیکن یہ امر پیشِ نظر رہے کہ سال بھر کے دوران ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں کم از کم نصاب کا رہنا ضروری ہے، ہر مال پر(خواہ وہ نقد رقم ہو یا سونا چاندی کی صورت میں ہو یا صنعت و تجارت کا مال ہو) سال گزرنا زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے لازمی نہیں ہے۔ اگر مال کے ہر جز پر سال گزرنے کی شرط کو لازمی قرار دیا جائے تو تاجر حضرات کے لیے زکوٰۃ کی تشخیص تقریباً ناممکن العمل ہو جائے، کیونکہ مال کی آمد و خرچ کا سلسلہ روز جاری رہتا ہے، بلکہ تنخواہ دار آدمی بھی ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ پس انداز کرتا ہے۔ لہٰذا مال کے ہر حصے کی مدت الگ ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا تشریح کی روشنی میں زکوٰۃ کی تشخیص کی مقررہ تاریخ سے چند دن قبل بھی اگر کوئی مال ’’صاحبِ نصاب‘‘ کی ملکیت میں آ جائے تو اسے پہلے سے موجود مال میں شامل کر کے کل مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

زکوٰۃ کےمعنی اور مفہوم

زکوٰۃ کےمعنی اور مفہوم
نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت
اور پاک صاف ہونے یا کرنے اور دوسرا معنی نشوونما اور ترقی کا ہے۔
زکوٰۃ کے اول الذکر معنی کی وضاحت قرآن مجید یوں کرتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo
                         ’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)o‘‘
اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیۂ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مدِ نظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانے والے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور جس طرح نفس کو آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے اسی طرح کھیتی کو فالتو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف کرنے پر بھی لفظ زکوٰۃ کا اطلاق ہوتا ہے۔
زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔
اس مفہوم کی رو سے زکوٰۃ کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) تسکین ہے اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
 



Tuesday, 13 December 2011

قرآن مجيد اور اس کی حفاظت


قرآن مجيد اور اس کی حفاظت
یہ خدا کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ میزان اور فرقان ہے٦٣؎ اور پہلی کتابوں کے لیے اِس کی حیثیت ایک ‘مہیمن’ کی ہے۔ یہ ‘ھیمن فلان علی کذا’ سے بنا ہوا اسم صفت ہے جو محافظ اور نگران کے معنی میں آتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کتاب الٰہی کا اصل قابل اعتماد نسخہ قرآن ہی ہے، لہٰذا دین کے معاملے میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اب اِسی کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ، فَاحْکُمْ بَيْْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ.(المائد٥: ٤٨)
اور (اے پیغمبر)، ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف حق کے ساتھ اتاری ہے، اُس کتاب کی تصدیق میں جو اِس سے پہلے موجود ہے اور اُس کے لیے مہیمن بنا کر، اِس لیے تم اِن کے درمیان اُس ہدایت کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کی ہے اور اُس حق کو چھوڑ کر جو تمھارے پاس آ چکا ہے، اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔
                    اِس کی ١١٤ سورتیں ہیں جن میں سے زیادہ تر اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مراحل دعوت کی ترتیب سے اُنھیں سات ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اِس کی زبان عربی ہے اور اِسے جبریل امین نے اللہ کے حکم سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل کیا ہے۔ آپ نے اِسے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا اور اِس سے آگے یہ مسلمانوں کے اجماع اور قولی و تحریری تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ چنانچہ دنیا کے الہامی لٹریچر میں اب تنہا یہی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ جس طرح دی گئی، بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے بالکل اُسی طرح، اُسی زبان میں اور اُسی ترتیب کے ساتھ اِس وقت ہمارے پاس موجود ہے۔ اِس کا یہ تواتر خود ایک معجزہ ہے، اِس لیے کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کو اِس وقت بھی لاکھوں مسلمان الحمد سے والناس تک محض حافظے کی مدد سے زبانی سنا سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں اِس کی روایت کا یہ سلسلہ ایک دن کے لیے بھی منقطع نہیں ہوا۔ اِس سے صاف واضح ہے کہ اِس کی حفاظت کا یہ اہتمام خود پروردگار عالم کی طرف سے ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَه، لَحٰفِظُوْنَ. (الحجر١٥: ٩)
یہ یاد دہانی ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
  یہی حقیقت ایک دوسرے مقام پر اِس طرح بیان ہوئی ہے:
وَاِنَّه، لَکِتٰبٌ عَزِيْزٌ، لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِه، تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَکِيْمٍ حَمِيْدٍ.(حٰم السجده٤١: ٤١-٤٢)
اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے۔ اِس میں باطل نہ آگے سے داخل ہو سکتا ہے نہ اِس کے پیچھے سے ۔ یہ ایک صاحب حکمت اور ستودہ صفات ہستی کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری گئی ہے۔
                    قرآن کی حفاظت کے جن پہلووں کی طرف اِس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ  یہ ہیں:
ایک یہ کہ قرآن کے زمانہ نزول میں اللہ تعالیٰ نے اِس امر کا خاص اہتمام فرمایا کہ قرآن کی وحی میں شیاطین کوئی مداخلت نہ کر سکیں۔ یوں تو اِس نظام کائنات میں یہ مستقل اہتمام ہے کہ شیاطین ملأ اعلیٰ کی باتیں نہ سن سکیں، لیکن ... نزول قرآن کے زمانے میں یہ اہتمام خاص طور پر تھا کہ شیاطین وحی الٰہی میں کوئی مداخلت نہ کر پائیں تاکہ اُن کو قرآن میں اُس کے آگے سے(مِنْ بَيْنِ يَديْهِ) کچھ گھسانے کا موقع نہ مل سکے۔
                دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کام کے لیے اپنے جس فرشتے کو منتخب کیا، اُس کی صفت قرآن میں‘ذِی قُوَّةٍ’، مطاع، قوی، امین اور عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِيْنٍ’ وارد ہوئی ہے۔ یعنی وہ فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ ارواح خبیثہ اُس کو مغلوب نہیں کر سکتیں، وہ تما م فرشتوں کا سردار ہے، وہ کوئی چیز بھول نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امانت اُس کے حوالے کی جاتی ہے ، وہ اُس کو بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ اُس میں زیر زبر کا بھی فرق واقع ہو سکے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقرب ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے برتر ہے ـــــظاہر ہے کہ یہ اہتمام بھی اِسی لیے فرمایا گیا ہے کہ قرآن میں اُس کے منبع کی طرف سے کسی باطل کے گھسنے کا امکان باقی نہ رہے۔
                تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِس امانت کو اٹھانے کے لیے جس بشر کو منتخب فرمایا، اول تو وہ ہر پہلو سے خود خیر الخلائق تھا، ثانیاً قرآن کو یاد رکھنے اور اُس کی حفاظت و ترتیب کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے تنہا اُس کے اوپر نہیں ڈالی، بلکہ یہ ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ چنانچہ سورہئ قیامہ میں فرمایا ہے:‘
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ، اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَه، وَقُرْاٰنَه،، فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَه،، ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه،’٦٤؎
(اور تم اِس قرآن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زبان کو تیز نہ چلاؤ، ہمارے اوپر ہے اِس کے جمع کرنے اور اِس کے سنانے کی ذمہ داری۔ تو جب ہم اِس کو سنا چکیں تو اِس سنانے کی پیروی کرو، پھر ہمارے ذمے ہے اِس کی وضاحت)۔
                روایات سے ثابت ہے کہ جتنا قرآن نازل ہو چکا ہوتا، اُس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقرب صحابہ یاد بھی رکھتے اور ہر رمضان میں حضرت جبریل کے ساتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا مذاکرہ بھی فرماتے رہتے تاکہ کسی سہو و نسیان کا اندیشہ نہ رہے اور یہ مذاکرہ اُس ترتیب کے مطابق ہوتا جس ترتیب پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کو مرتب کرنا پسند فرمایا۔ یہ بھی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک کے آخری رمضان میں یہ مذاکرہ دو مرتبہ فرمایا۔ پھر اِسی ترتیب اور اِسی قراء ت کے مطابق پورا قرآن ضبط تحریر میں لایا گیا اور بعد میں خلفاے راشدین نے اِسی کی نقلیں مملکت کے دوسرے شہروں میں بھجوائیں۔ یہ اہتمام پچھلے صحیفوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ تورات کے متعلق تو یہ علم بھی کسی کو نہیں ہے کہ اُس کے مختلف صحیفے کس زمانے میں اور کن لوگوں کے ہاتھوں مرتب ہوئے۔
                چوتھا یہ کہ قرآن اپنی فصاحت الفاظ اور بلاغت معنی کے اعتبار سے معجزہ ہے جس کے سبب سے کسی غیر کا کلام اُس کے ساتھ پیوند نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام بھی، باوجودیکہ آپ اِس قرآن کے لانے والے اور افصح العرب والعجم ہیں، اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اِس وجہ سے اِس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی غیر کا کلام اُس کے ساتھ مخلوط ہو سکے۔ چنانچہ جن مدعیوں نے قرآن کا جواب پیش کرنے کی جسارت کی، اُن کی مز خرفات کے نمونے ادب اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ اُن کو قرآن کے مقابل میں رکھ کر موازنہ کر لیجیے، دونوں میں گہر اور پشیز کا فرق نظر آئے گا ـــــ اِس طرح گویا پیچھے سے بھی (وَمِنْ خَلْفِه) قرآن میں دراندازی کی راہ مسدود کر دی گئی ۔
 پانچواں یہ کہ قرآن کی حفاظت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی زبان کی حفاظت کا بھی قیامت تک کے لیے وعدہ فرما لیا۔ دوسرے آسمانی صحیفوں میں تو اُن کی اصل زبانیں مٹ جانے کے سبب سے بے شمار تحریفیں ترجموں کی راہ سے داخل ہو گئیں جن کا سراغ اب ناممکن ہے، لیکن قرآن کی اصل زبان محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ اِس وجہ سے ترجموں اور تفسیروں کی راہ سے اُس میں کسی باطل کے گھسنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اُس میں کسی باطل کو گھسانے کی کوشش کی جائے گی تو اہل علم اصل پر پرکھ کر اُس کو چھانٹ کر الگ کر سکتے ہیں۔ (تدبر قرآن٧/ ١١٢)

کتابوں پر ایمان


کتابوں پر ایمان
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا، اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ، وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰۤئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا.(النساء٤: ١٣٦)
ایمان والو، اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اُس کتاب پر ایمان لاؤ جو اُس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور اُس کتاب پر بھی جو اُس نے پہلے نازل کی اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں اور قیامت کے دن کے منکر ہوں گے، وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے۔
    انسان کی ہدایت کے لیے جس طرح نبی بھیجے گئے، اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ اپنی کتابیں بھی نازل کی ہیں۔ یہ کتابیں اِس لیے نازل کی گئیں کہ خدا کی ہدایت لکھی ہوئی اور خود اُس کے الفاظ میں لوگوں کے پاس موجود رہے تاکہ حق و باطل کے لیے یہ میزان قرار پائے، لوگ اِس کے ذریعے سے اپنے اختلافات کا فیصلہ کر سکیں اور اِس طرح دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ.(البقرة٢: ٢١٣)
اور اِن (نبیوں) کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔
وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ.(الحدید٥٧: ٢٥)
اور اِن (رسولوں) کے ساتھ ہم نے اپنی کتاب، یعنی (حق و باطل کے لیے) میزان نازل کی تاکہ (اِس کے ذریعے سے) لوگ (دین کے معاملے میں) ٹھیک انصاف پر قائم ہوں۔
    اِس وقت جو مجموعہء صحائف بائیبل کے نام سے موجود ہے، اُس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتابیں کسی نہ کسی صورت میں تمام پیغمبروں کو دی گئیں۔ قرآن جس طرح تورات و انجیل کا ذکر کرتا ہے، اِسی طرح صحف ابراہیم کا ذکر بھی کرتا ہے۔٥٦؎ اِس کی تائید بقرہ و حدید کی اُن آیتوں سے بھی ہوتی ہے جو اوپر نقل ہوئی ہیں۔ یہ سب کتابیں خدا کی کتابیں ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی تفریق کے قرآن بالاجمال اِن پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے۔ اِن میں سے چار کتابیں، البتہ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں: تورات، زبور، انجیل اور قرآن۔

فرشتوں پر ایمان


فرشتوں پر ایمان
اللہ تعالیٰ جن ہستیوں کے ذریعے سے مخلوقات کے لیے اپنا حکم نازل کرتے ہیں، اُنھیں فرشتے کہاجاتا ہے۔ قرآن میں اُن کے لیے ‘الملٰئکۃ’ کا لفظ آیا ہے۔ یہ ‘ملک’ کی جمع ہے جس کی اصل ‘ملأک’ ہے۔ اِس کے معنی پیام بر کے ہیں۔ سورہئ فاطر کی جو آیت سرعنوان ہے، اُس میں خود قرآن نے اشارہ کر دیا ہے کہ اُنھیں ملائکہ کا نام اِسی مفہوم کو پیش نظر رکھ کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم لاہوت کے ساتھ اِس عالم ناسوت کا رابطہ اُن کی وساطت سے قائم ہوتا اور اِس کا تمام کاروبار اللہ تعالیٰ اُنھی کے ذریعے سے چلاتے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بارگاہ خداوندی سے جو حکم اُنھیں القا کیا جاتا ہے، اُس کو وہ ایک محکوم محض کی طرح اُس کی مخلوقات میں جاری کر دیتے ہیں۔ اِس میں اُن کا کوئی ذاتی اختیار اور ذاتی ارادہ کارفرما نہیں ہوتا۔ وہ سرتاپا اطاعت ہیں، ہر وقت اپنے پروردگار کی حمدوثنا میں مصروف رہتے ہیں اور اُس کے حکم سے سرمو انحراف نہیں کرتے:
                                                 وَهُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ، یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ.(النحل١٦:٤٩-٥٠)
 وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے، اپنے پروردگار سے جو اُن کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا حکم اُنھیں دیا جاتا ہے۔
فرشتوںپر ایمان کا تقاضا جن وجوہ سے کیا گیا ہے، وہ یہ ہیں:
...ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسل کا ایک غیر منفک جزو ایمان بالملائکہ ہے۔ ملائکہ کو مانے بغیر خدا اور اُس کے نبیوں کے درمیان کا واسطہ غیر واضح اور غیر معین رہ جاتا ہے، جس کے غیر واضح رہنے سے نہ صرف سلسلہ علم وہدایت کی ایک نہایت اہم کڑی گم شدہ رہ جاتی ہے، بلکہ ہدایت آسمانی کے باب میں عقل انسانی کو گمراہی کی بہت سی راہیں بھی مل جاتی ہیں۔یہ بات تو دنیا ہمیشہ سے مانتی آئی ہے کہ خدا ہے اور یہ بات بھی اُس نے ہمیشہ محسوس کی ہے کہ جب وہ ہے تو اُسے اپنی مرضیات سے اپنے بندوں کو آگاہ بھی کرنا چاہیے، لیکن جب وہ کبھی بے نقاب اور رودررو ہوکر ہمارے سامنے نہیں آتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ذریعہ اور واسطہ کیا ہے جس سے وہ خلق کو اپنے احکام و ہدایات سے آگاہ کرتا ہے۔ اگر اِس مقصد کے لیے اُس نے اپنے خاص خاص بندوں کو منتخب کیا ہے، جن کو انبیا ورسل کہتے ہیں تو بعینہٖ یہی سوال اُن کے بارے میں بھی اٹھتا ہے کہ اِن نبیوں اور رسولوں کو وہ اپنے علم وہدایت سے آگاہ کرنے کا کیا ذریعہ اختیار کرتا ہے۔ کیا رودررو ہو کر خود اُن سے بات کرتا ہے یا کوئی اور ذریعہ اختیار فرماتا ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبیوں کے درمیان علم کا واسطہ وحی ہے جو وہ اپنے فرشتوں، بالخصوص اپنے مقرب فرشتے جبریل کے ذریعہ سے بھیجتا ہے۔ یہ فرشتے خدا کی سب سے زیادہ پاکیزہ اور برتر مخلوق ہیں۔ اِن کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ یہ براہ راست خدا سے وحی اخذ کر سکتے ہیں... وحی ورسالت کے ساتھ فرشتوں کے اِس گہرے تعلق کی وجہ سے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانے کے لیے اِن پر ایمان لانا بھی ضروری ہوا۔ یہ خدا اور اُس کے نبیوں اور رسولوں کے درمیان رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور اِس اعتبار سے یہ ناگزیر ہیں کہ یہی ایک ایسی مخلوق ہیں جو عالم لاہوت اور عالم ناسوت، دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں۔ یہ اپنی نورانیت کی وجہ سے خدا کے انواروتجلیات کے بھی متحمل ہو سکتے ہیں اور اپنی مخلوقیت کے پہلو سے انسانوں سے بھی اتصال پیدا کرسکتے ہیں۔ اِن کے سوا کوئی اور مخلوق خدا تک رسائی کا یہ درجہ اور مقام نہیں رکھتی۔ اِس وجہ سے ضروری ہوا کہ نبیوں اور رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اُن رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے جو خدا اور اُس کے رسولوں کے درمیان رسالت کا واسطہ ہیں۔ (تدبرقرآن١/٤٢٣)
اِن کے جو فرائض اور ذمہ داریاں قرآن میں بیان ہوئی ہیں، وہ یہ ہیں:
١۔ وہ خدا کا حکم اُس کی مخلوقات میں جاری کرتے ہیں۔
تَنَزَّلُ الْمَلٰۤئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ.(القدر٩٧:٤)
اِس (رات) میں فرشتے اور روح الامین اترتے ہیں، ہر حکم لے کر اپنے پروردگار کی اجازت سے۔
٢۔ وہ جس طرح حکم لے کر اترتے ہیں، اِسی طرح بارگاہ خداوندی میں پیشی کے لیے عروج بھی کرتے ہیں۔
              تَعْرُجُ الْمَلٰۤئِکَةُ وَالرُّوْحُ اِلَیْْهِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُه، خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ.(المعارج٧٠: ٤)
فرشتے اور روح الامین (تمھارے حساب سے) پچاس ہزار سال کے برابر ایک دن میں اُس کے حضور پہنچتے ہیں۔
٣۔ وہ نبیوں پر وحی نازل کرتے ہیں۔
یُنَزِّلُ الْمَلٰۤئِکَةَ بِالْرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهِ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّه، لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اََنَا فَاتَّقُوْنِ. (النحل١٦: ٢)
اپنے بندوں میں سے وہ جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے کہ لوگوں کو خبردار کرو کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، اِس لیے تم مجھی سے ڈرو۔

شکر



شکر
اللہ تعالٰی کے ساتھ ہمارے تعلق کی سب سے پہلی بنیاد شکر ہے۔ شکر کا تعلق دل سے بھی ہے، زبان سے بھی اور عمل سے بھی ہے۔ دل کا شکر یہ ہے کہ آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں، اس کے بے نہایت احسانات اور اس کے ان گنت انعامات کے احساس و اعتراف کے جذبہ سے اس طرح لبریز رہے جس طرح ایک دودھیل بکری کا تھن دودھ سے لبریز رہتا ہے۔ یہ تمثیل ہم نے محض تمثیل کے مقصد سے نہیں اختیار کی ہے، بلکہ لفظ شکر کی لغوی حقیقت بھی کچھ اس سے ملتی جلتی ہے۔ دل جب اللہ تعالیٰ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز رہتا ہے تو جس طرح ذرا سی حرکت سے ایک لبریز ساغر چھلک جایا کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالٰی کی ہر چھوٹی یا بڑی نعمت کی یاد اور اس کے مشاہدے سے بندے کی زبان سے شکر کا کوئی کلمہ چھلک پڑتا ہے۔
 جس شخص کا دل اس طرح خدا کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز رہے اس کا اثر لازمی طور پر اس کے اعمال پر بھی پڑتا ہے۔ اس کو ہر وہ عمل دل سے محبوب ہو جاتا ہے جس سے اس جذبے کو تسکین حاصل ہو سکے۔ اور اسی کے برابر اس کو ہر اس عمل سے نفرت ہو جاتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی کسی ظاہری یا باطنی نعمت کی نا قدری ہو رہی ہو۔ کسی نعمت کی قدر کا حقیقی احساس اگر آدمی کے اندر موجود ہو تو وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا کہ وہ اس نعمت کو اپنے حقیقی منعم ہی کے منشاء کے خلاف استعمال کرے۔ اگر ایک کرم فرما ہمیں ایک ٹارچ عنایت کرے کہ ہم اس کی مدد سے اندھیرے کی ٹھوکروں سے بچ سکیں، ایک تلوار عنایت کرے کہ دشمن کے خطرات کی مدافعت کر سکیں، ایک سوار عنایت کرے کہ پیدل چلنے کی مشقت سے بچ سکیں تو کوئی انتہائی درجے کا کمینہ اور لئیم ہی ہو گا جو ان سارے اسباب و وسائل کو اسی کرم فرما کے گھر پر حملہ اور اسی کے زن و فرزند کو قتل کرنے میں استعمال کرے جس نے یہ اسباب و اسلحہ اس کو عنایت فرمائے۔ اسی طرح جس بندے کے اندر ان نعمتوں کا سچا احساس ہوتا ہے جو خدا نے اس کو عنایت کی ہیں، وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ ان نعمتوں کو وہ شیطان کی مقصد برآری میں خرچ کر لے۔ اسی حقیقت کی طرف حضرت عائشہؓ نے اپنے اس خط میں اشارہ فرمایا ہے، جو امیر معاویہؓ کو لکھا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ "جس شخص پر انعام ہوا ہو اس کے اوپر کم سے کم جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس انعام کو اسی کی نافرمانی کا ذریعہ نہ بنائے جس نے وہ انعام اس پر کیا ہے۔"
 اس شکر کے جذبے کو صحیح طو رپر بیدار رکھنے کے لیے چند باتیں نہایت ضروری ہیں:
پہلی تو یہ ہے کہ آدمی کو اس کے ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ملی ہوئی ہیں ان کو برابر نگاہ میں رکھنے کی کوشش کرے۔ انسان کے اندر یہ بڑی کمزوری ہے کہ اگر وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو وہ اس کے ذہن پر چوبیس گھنٹے مسلط رہتی ہے اور ہر کسی سے اس کا ذکر کرتا ہے، لیکن اللہ تعالٰی کی بے شمار نعمتیں جو اس کو ہر وقت حاصل ہیں ان سے وہ اس طرح غافل و بے پرواہ رہتا ہے گویا ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہین ہے۔ اگر آدمی کو نعمتوں کے نعمت ہونے اور نعمتوں سے بہرہ یاب ہونے کا کوئی احساس ہی نہ ہو تو وہ منعم کی قدر کیا کرے گا اور اس کے لیے اس کے اندر شکر و سپاس کا جذبہ کیا پیدا ہو گا۔ اس غفلت کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جو اس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے ظاہر و باطن، دونوں میں بخشی ہیں، بلکہ ان کے مظاہر اس کائنات کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
                تنہائی میں کبھی کبھی غور کرتے کرتے وہ اس پہلو سے بھی سوچے کہ بالفرض یہ نعمتیں اس کو حاصل نہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟ یہ آنکھ جس سے وہ دیکھتا ہے اس سے وہ محروم ہوتا، یہ کان جس سے وہ سنتا ہے یہ بہرے ہوتے، یہ ہاتھ جن سے وہ زور آزمائی کرتا ہے شل ہوتے، یہ پاؤں جن سے وہ چلتا ہے مفلوج ہوتے تو اس کا حشر کیا ہوتا؟ اور پھر سب سے زیادہ اس بات پر دھیان کرے کہ یہ دماغ جس کی کارفرمائیوں پر وہ سب سے زیادہ نازاں ہے، خدانخواستہ یہ ماؤف ہوتا تو اس کی گت کیا بنتی؟
                دوسری ضروری بات یہ ہے کہ آدمی اس امر پر بھی ساتھ ہی ساتھ غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں ہمیں بخشی ہیں بلا کسی استحقاق کے بخشی ہیں۔ نہ ہمارا خدا پر کوئی حق قائم تھا نہ ہم نے کسی نعمت کا اس کو معاوضہ ادا کیا ہے اور نہ کسی نعمت کا معاوضہ ادا کر سکتے ہیں۔ پھر وہ جب چاہے اپنی ہر نعمت کو ہم سے چھین سکتا ہے، کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ آج آپ کو تخت شاہی کی عظمتیں حاصل ہیں، کل وہ آُپ کے ہاتھ میں کاسہ گدائی پکڑا دے تو آپ اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے کبھی بھی ذلت و مصیبت میں پڑے ہوئے آدمی کو نظر انداز کرتے ہوئے گزر جانے کی کوشش نہ کیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ اسی حالت میں مبتلا کر دیتا یا آئندہ کر دے تو آپ کو اس چیز سے کون بچا سکے گا۔ دنیا میں مصیبت زدہ سے مصیبت زدہ او رمفلوک سے مفلوک آدمی جو آپ نے دیکھا ہو، یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ ٹھیک اس کی جگہ پر آپ کو کھڑا کر سکتا تھا اور اس کو آپ کی جگہ دے سکتا تھا، لیکن یہ اس کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ آپ کو اس سے نہایت بہتر حالت میں رکھا۔
                تیسری ضروری بات اپنے اندر شکر گزاری کا جذبہ بیدار رکھنے کے لیے یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ انہی لوگوں کو دیکھنے کی کوشش نہ کرے جو اپنے اسباب و وسائل اور اپنے حالات و ذرائع کے اعتبار سے اس سے بہتر حالت میں ہوں، بلکہ ان لوگوں کو بھی سامنے رکھ کر اپنا موازنہ کرتا رہے جو ہر پہلو سے اس سے فرو تر زندگی رکھتے ہیں۔ جو آدمی ہمیشہ اپنے سے بہتر حالات رکھنے والوں ہی پر نگاہ رکھتا ہے وہ ہمیشہ اپنی تقدیر سے شاکی اور اپنے رب سے بد گمان رہتا ہے۔ اس کے دل کو سچی خوشی کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر اس کو بہتر حالات بھی میسر آ جائیں جب بھی اس کا دل آسودہ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ یہ درجہ تو اس کو بہر حال حاصل ہونے سے رہا کہ اس آسمان کے نیچے کوئی شخص کسی اعتبار سے بھی اس سے بہتر حالت میں نہ رہے۔ اس وجہ سے خدا کی شکر گزاری کا صحیح حق ادا کرنے کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ آدمی ان لوگوں کے حالات پر نگاہ ڈالے جو اسی خدا کے بندے ہیں جس کا بندہ وہ ہے، لیکن ان لوگوں کو ان چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی حاصل نہیں ہے جو اس کو بڑی وسعت کے ساتھ حاصل ہیں۔
                حضرت سعدیؒ کی ایک حکایت اس حقیقت کو نہایت خوبی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اپنی سیرو سیاحت کے سلسلے میں وہ دمشق یا کسی اور شہر میں جب پہنچے تو ان کی جوتی پھٹ چکی تھی اور ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ نئی جوتی خرید سکیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اپنی اس غربت کے سبب سے میں دل میں نہایت ملول تھا اور بار بار یہ خیال ذہن میں پیدا ہو رہا تھا کہ اس فضل و کمال کے باوجود خدا نے مجھے اس حال میں رکھا ہے کہ میرے پاؤں میں جوتی بھی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں اسی گرفتگی کے ساتھ شہر کی مسجد میں داخل ہوا۔ وہاں پہنچا تو میری نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جس کے سرے سے پاؤں ہی نہیں تھے۔ اس کو دیکھتے ہی میں دفعۃً اپنے رب کے آگے سجدے میں گر پڑا کہ اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے جوتی نہیں تو پاؤں تو دیے ہیں۔ یہ بے چارہ تو سرے سے پاؤں ہی سے محروم ہے۔
حضرت سعدی نے اپنی اس سرگزشت میں نہایت خوبی کے ساتھ یہ بات سمجھا دی ہے کہ خدا کا شکر گزار بندہ بننے کے لیے دنیا کو کس نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔ جو لوگ دنیا کو سعدی ؒ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کو قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی وہ نشانیاں ملتی رہتی ہیں جو ان کو خدا کے شکر پر ابھارتی رہتی ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ کتنوں کے پاس پاؤں ہی نہیں ہیں، اپنی اس محرومی پر خدا سے شاکی رہتے ہیں۔ کہ ان کے پاس کار نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی خدا کی شکر گزاری کی توفیق نہیں پاتے۔

Thursday, 8 December 2011

ایمان مجمل اور ایمان مفصل کیا ہے؟

ایمان مجمل اور ایمان مفصل کیا ہے؟
       ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ علمائے اسلام نے ایمان کی صفات کو دو طرح سے بیان کیا ہے :
1. ايمانِ مُجْمَل
2. ايمانِ مُفَصَّل
اِیمانِ مُجْمَل میں ایمانیات کو نہایت مختصر مگر جامع طریقے سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ مُجْمَل کا معنی ہی’خلاصہ‘‘ ہے۔ اس میں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر اس طرح ہوا ہے کہ بغیر اعلان کیے جملہ ایمانیات اس میں در آئیں،ایمانِ مُجْمَل یہ ہے
                     اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَائِه وَ صِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِه، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ  بِالْقَلْبِ
          ’’میں اللہ پر اس کے تمام اسماء و صفات کے ساتھ ایمان لایا، اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے اور اس کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی۔‘‘
 جبکہ ایمانِ مُفَصَّل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت شدہ ایمانیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایمانِ مُفَصَّل یہ ہے
                          اٰمَنْتُ بِاﷲِ وَمَلَائِکَتِه وَ کُتُبِه وَ رُسُلِه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَ شَرِّه مِنَ اﷲِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
                                     ؂’’میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر
                                                  اور اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر۔‘‘
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل امور پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا ہے
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔
فرشتوں پر ایمان لانا۔
کتابوں پر ایمان لانا۔
رسولوں پر ایمان لانا۔
یومِ آخرت پر ایمان لانا۔
تقدیر کے اچھا یا برا ہونے پر ایمان لانا۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔


Flickr