عقیدہ کے معنی اور مفہوم
1. عقیدے کی لغوی تعریف : عقیدہ دراصل لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ہیں کسی چیز کو باندھنا ،جیسے کہا جاتا ہے "اعتقدت کذا" (میں ایسا اعتقاد رکھتا ہوں) یعنی میں نے اسے (اس عقیدے کو) اپنے دل اور ضمیر سے باندھ لیا ہے ۔
لہذا عقیدہ : اس اعتقاد کو کہا جاتا ہے جو انسان رکھتا ہے ، کہا جاتا ہے : "عقیدۃ حسنة" (اچھا عقیدہ) ، یعنی : "سالمة من الشک" (شک سے پاک عقیدہ) ، عقیدہ در حقیقت دل کے عمل کا نام ہے ، اور وہ ہے دل کا کسی بات پرایمان رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا ۔
عقیدہ کی شرعی تعریف: اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر ،اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، یومِ آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھنا ، اور انہیں ارکانِ ایمان بھی کہا جاتا ہے۔
لہذا عقیدہ : اس اعتقاد کو کہا جاتا ہے جو انسان رکھتا ہے ، کہا جاتا ہے : "عقیدۃ حسنة" (اچھا عقیدہ) ، یعنی : "سالمة من الشک" (شک سے پاک عقیدہ) ، عقیدہ در حقیقت دل کے عمل کا نام ہے ، اور وہ ہے دل کا کسی بات پرایمان رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا ۔
عقیدہ کی شرعی تعریف: اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر ،اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، یومِ آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھنا ، اور انہیں ارکانِ ایمان بھی کہا جاتا ہے۔
عقائد :
لہذا صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے ، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ جسے بھی اپنے رب سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ﴾
اور ارشاد باری تعالی ہے :
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ یقیناً آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے ) کے تمام نبیوں ( کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلا شبہ آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین آپ زیاں کاروں میں سے ہوجائیں گے﴾
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں ، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے ، خبردار ! اللہ تعالی ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے ﴾یہ اور اس مفہوم کی دیگر آیاتِ کریمہ جو کہ بہت زیادہ ہیں ، اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اعمال اسی وقت مقبول ہوں گے جب وہ شرک سے پاک ہوں، کی اولین ترجیح عقیدے کی اصلاح رہی ۔ پس سب سے پہلے وہ اپنیoاسی لیے تمام رسولوں قوموں کو اس بات کی دعوت دیتے رہے کہ صرف اکیلے اللہ کی عبادت جائے اور اللہ تعالی کے سوا ہر کسی کی عبادت ترک کی جائے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
اور ہر رسول جب بھی اپنی قوم سے مخاطب ہوئے تو فرمایا :
﴿ اعْبُدُواْ اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ ﴾ (الاعراف: 59)
﴿ اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں ﴾
یہی بات نوح ، ہود ، صالح ، شعیب ، اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں سے فرمائی ۔
بعثت کے بعد نبی اکرم(ﷺ) مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک لوگوں کو توحید اور عقیدے کی اصلاح کی دعوت دیتے رہے ، اس لیے کہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ (حقیقی ) داعیان اور مصلحین نے ہر زمانے میں انبیاء کرام (علیہم السلام) کے اسی نقش قدم کی پیروی کی ہے۔ چناچہ وہ توحید اور عقیدےکی اصلاح کی دعوت سے اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں ، اس کے بعد دین کے دیگر احکامات کی پیروی کا حکم دیتے ہیں ۔
بعثت کے بعد نبی اکرم(ﷺ) مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک لوگوں کو توحید اور عقیدے کی اصلاح کی دعوت دیتے رہے ، اس لیے کہ یہی وہ بنیاد ہے جس پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ (حقیقی ) داعیان اور مصلحین نے ہر زمانے میں انبیاء کرام (علیہم السلام) کے اسی نقش قدم کی پیروی کی ہے۔ چناچہ وہ توحید اور عقیدےکی اصلاح کی دعوت سے اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں ، اس کے بعد دین کے دیگر احکامات کی پیروی کا حکم دیتے ہیں ۔