سورۃ التین
تین مقامات مقدسہ کی قسم کھائی کہ جس طرح طور، بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کو ”وحی“ کے ساتھ اعزاز و شرف عطاءفرمایا اسی طرح کائنات کی تمام مخلوقات میں انسان کو ”شاہکار قدرت“ بنا کر حسین و جمیل اور بہترین شکل و صورت کے اعزاز و اکرام سے نواز اہے۔ اس کی حیثیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جب یہ ایمان اور اعمال صالحہ سے اپنی زندگی کو مزین کرلیتا ہے اور اگر کفر اور تکذیب کا راستہ اپناتا ہے تو عزو افتخار کی بلندیوں سے قعرِ مذلت میں جاگرتا ہے۔
سورۃ علق
پہلی وحی میں نازل ہونے والی پانچ آیتیں اس سورت کی ابتداءمیں شامل ہیں جن میں قرآنی نصاب تعلیم کے خدو خال واضح کرکے انسان کی سرکشی کے اسباب سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور ابو جہل ملعون کی بدترین حرکت کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ کو اور اپنی حقیقت کو فراموش نہ کرنا قرآنی نصاب تعلیم کی بنیاد ہے اور مجہولات کو معلومات کی شکل میں تبدیل کرنا اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ ”فرعون ہذہ الامة“ ابوجہل کی سرکشی اور تکبر کی انتہاءکو بیان کیا کہ محمد علیہ السلام کو نماز جیسے عظیم الشان عمل کی ادائیگی سے روکنے اور آپ کا مبارک سر اپنے ناپاک قدموں کے نیچے کچلنے کی پلاننگ کرتا تھا۔ نازیبا حرکت سے باز نہ آنے کی صورت میں اسے جہنمی فوج کے ہاتھوں گرفتار کراکے اس کی جھوٹی اور گناہوں سے آلودہ پیشانی کے بالوں سے گھسیٹ کر جہنم رسید کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اور ساتھ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے سرکش و نافرمانوں کی اطاعت کی بجائے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اس کا تقرب حاصل کرتے رہنے کی تلقین ہے۔
سورۃ قدر
اس سورت میں لیلة القدر کی فضیلت اور وجہِ فضیلت کا بیان ہے کہ یہ رات ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے زیادہ اجرو ثواب دلانے والی ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ اس رات میں نزول قرآن ہے۔ گویا شب قدر کی عظمتوں کا راز نزول قرآن میں ہے اور انسانیت کے لئے یہ پیغام ہے کہ تمہیں بھی عظمتیں مطلوب ہیں تو قرآن کے دامن سے وابستگی میں مضمر ہیں۔ اس رات میں جبریل امین فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور اس رات کے عبادت گزاروں پر سلامتی اور رحمت کے نزول کی دعاءکرتے ہیں اور یہ کیفیت صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔
سورہ بینہ
اس سورت میں پڑھے لکھے جاہلوں کے بغض و عناد کا تذکرہ ہے کہ دین فطرت اسلام کا راستہ روکنے کے لئے یہودی و عیسائی او رمشرکین باہم متحد ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی عبادت میں بندوں سے اخلاص اور یکسوئی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر کفر و شرک کے مرتکب انسانوں کو بدترین خلائق اور ایمان و عمل صالح کے علمبرداروں کو بہترین خلائق قرار دے کر دونوں جماعتوں کے انجام کے تذکرہ پر سورت کا اختتام کردیا گیا ہے۔
سورہ زلزال
اس سورت میں قیام قیامت کی منظر کشی کے بعد انسانی مستقبل کو اس کے اعمال پر منحصر قرار دے کر بتایا ہے کہ معمولی سے معمولی عمل بھی، چاہے اچھا ہو یا برا، انسانی زندگی پر اپنے اثرات پیدا کئے بغیر نہیں رہتا اور قیامت میں خیر و شر ہر قسم کے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔
سورہ عادیات
مجاہدین کی سواریوں کی قسمیں کھاکر جہاد فی سبیل اللہ عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح دوڑتے ہوئے گھوڑوں کا ہانپنا، کھروں سے چنگاریاں اڑانا، صبح سویرے دشمن پر حملہ آور ہونا، گرد و غبار اڑانا اور دشمن کے مجمع میں گھس جانا، مبنی برحقیقت ہے اسی طرح انسان میں ناشکری اور حب مال کے جذبات کا پایا جانا بھی ایک حقیقت ہے۔ اگر قبروں کے کریدے جانے اور سینہ کے بھید کے ظاہر ہوجانے کا یقین ہوتا تو انسان کے اندر یہ منفی جذبات پیدا نہ ہوتے۔
سورہ قارعہ
اس سورت میں قیام قیامت اور اس کی ہولناکی کے تذکرہ کے ساتھ اعمال کے وزن اور بے وزن ہونے کا تذکرہ اور دونوں صورتوں کا انجام مذکور ہے۔
سورہ تکاثر
مال میں زیادتی کی حرص قبر تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جب جہنم کا نظارہ ہوگا تبھی اس مال کی بے ثباتی کا پتہ چلے گا وہی محاسبہ کا وقت ہوگا اور ایک ایک نعمت کا حساب لیا جائے گا۔
سورہ عصر
زمانہ کی قسم کھاکر دراصل ماضی کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے کہ چار صفات ۱۔ایمان ۲۔اعمال صالحہ ۳۔حق کی تلقین کرنے ۴۔اور حق کے راستہ کی مشکلات پر صبر کرنے والے ہر دور میں کامیاب اور ان صفات سے محروم ہر دور میں ناکام رہے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن کریم میں صرف یہی ایک سورت نازل ہوتی تو انسانی رہنمائی اور ہدایت کے لئے کافی ہوجاتی۔
سورہ ہمزہ
لوگوں کا استہزاءو تمسخر اڑانے اور طعنہ زنی کرنے والوں کی مذمت اور حب مال میں مبتلا لوگوں کا عبرتناک انجام مذکور ہے۔
سورہ فیل
ہاتھیوں کے خانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے اور ان کے عبرتناک انجام کے تذکرہ سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر انسان اللہ کے دین کے دفاع سے پہلوتہی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ حقیر پرندوں سے یہ کام لے سکتے ہیں۔
سورہ قریش
قریش مکہ اور ان کے واسطہ سے ہر اس شخص کو غیرت دلائی گئی ہے جو براہ راست اللہ کی نعمتوں، خاص طور پر اللہ کے دین کی برکتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اپنے رب کی عبادت اور اس کے دین کے دفاع سے غافل ہو۔
سورہ ماعون :خدمت خلق کے کاموں سے غفلت برتنے، یتیموں کی کفالت سے دست کش ہونے اور نماز میں سستی کا مظاہرہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔
سورہ ماعون :خدمت خلق کے کاموں سے غفلت برتنے، یتیموں کی کفالت سے دست کش ہونے اور نماز میں سستی کا مظاہرہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔
سورہ کوثر
حوض کوثر جیسی خیر کثیر اپنے نبی کو عطا فرمانے کے اعلان کے ساتھ ہی دشمنان و گستاخان رسول کا نام و نشان تک مٹادینے کا اعلان ہے۔
سورہ کافرون
اسلامی نظام حیات کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی طرف نگاہ نہ اٹھانے اور کفر سے بیزاری کا اظہار کرنے کی تلقین ہے۔
سورہ نصر
اسلامی ترقی کے بامِ عروج ”فتح مکہ“ کی پیشن گوئی اور لوگوں کے جوق در جوق اسلامی نظام کو اختیا رکرنے کے اعلان کے ساتھ تسبیح و تحمید واستغفار میں مشغول ہونے کی تلقین ہے۔
سورہ لہب
دشمنانِ خدا و رسول کے بدترین نمائندے ابو لہب جو آپ کا چچا بھی تھا اور قریش کا سردار بھی تھا اس کی اپنی بیوی سمیت عبرتناک موت کے اعلان کے ساتھ مخالفین اسلام کو تنبیہ ہے۔
سورہ اخلاص
عیسائیوں اور مشرکوں کے باطل عقیدہ کی تردید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ اور خالص توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس سورت کو ”تہائی“ قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔
سورہ فلق
تمام مخلوقات اور شرارت کے عادی حاسدین کے شر سے اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی تلقین ہے۔
سورہ ناس
توحید کی ”اقسام ثلاثہ“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن و انس کے قبیل سے تعلق رکھنے والے ہر وسوسہ پیدا کرنے والے سے اللہ کی پناہ میں آنے کی ترغیب ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ سونے سے پہلے اخلاص، فلق اور ناس تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کرکے پورے جسم پر پھیر لیا کرتے تھے اور یہ عمل تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔
سورت الحجرات
مدنی سورت ہے۔ اس میں اٹھارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں۔ اس سورت کا دوسرا نام ”سورة الآداب“ ہے۔ مجلس رسول کا ادب سکھایا گیا کہ آپ کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ آپ سے کوئی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے، دروازہ پر کھڑے ہوکر چلا چلا کر آپ کو پکارا نہ جائے آپ کے آرام و راحت کا خیال رکھا جائے۔ پھر اسلامی معاشرہ کے آداب کہ افواہوں پر کان نہ دھرا جائے۔ بلا تحقیق کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جو دوسرے کے لئے مالی و جانی نقصان اور اپنے لئے ندامت و پشیمانی کا باعث بن جائے۔ مو
¿منین کو آپس میں بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے کی تلقین کے ساتھ ہی باہمی اختلافات کی صورت میں صلح صفائی کی تعلیم دے کر ظالم اور ہٹ دھرم کے خلاف مظلوم کی مدد کا حکم دیا گیا۔ معاشرہ کے کسی بھی فرد یا جماعت کے استہزاءو تمسخر سے باز رہنے اور بدگمانی سے بچنے کی ترغیب دی گئی اور غیبت کو اس قدر بدترین عمل قرار دیا کہ اپنے بھائی کی میت سے گوشت نوچ کر کھانے کے مترادف قرار دیا۔ پوری انسانیت کو ایک گھرانے کے افراد بتاکر خاندانوں اور برادریوں کی تقسیم کو تسلیم کرتے ہوئے اسے فضیلت یا اعزاز کی بنیاد قرار دینے سے باز رہنے کی تلقین کے ساتھ ہی اسلامی معاشرہ میں اعزاز و احترام کی بنیاد ”تقویٰ“ کی تعریف کی گئی۔ ایمان کو محض اللہ کا فضل قرار دے کر عُجب اور کبر کی بیخ کنی کردی گئی اور بتایا کہ ایمان کی صداقت کے ثبوت کی علامت ”جہاد فی سبیل اللہ“ میں جانی و مالی شرکت ہے۔
سورة الاحزاب
الاحزاب سے گروہ اور جماعتیں مراد ہیں۔ مشرکین مکہ نے تمام عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف آمادہ جنگ کرکے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرلیا تھا۔ حضور علیہ السلام نے مسلمانوں کے مشورہ سے اپنے دفاع کے لئے خندق کھود لی تھی اس لئے اسے غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کہا جاتا ہے۔ اس سورت میں مدنی سورتوں کی طرح قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کا بھی تذکرہ ہے۔ اس لئے اسے ”الاحزاب“ کے نام سے موسوم کیا گیاہے۔ سورت کی ابتداءمیں ”تقویٰ“ کے حکم کے ساتھ کافروں اور منافقوں کی عدم اطاعت اور وحی الٰہی کے اتباع اور توکل کی تلقین ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ کسی کے سینہ میں اللہ نے دو دل نہیں رکھے۔ ظہار یعنی اپنی بیویوں کی کمر کو اپنی ماﺅں کی کمر کے مشابہ قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے ”منہ بولے“ رشتوں کے احکام بیان کئے ہیں کہ کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دینے سے یہ رشتے ثابت نہیں ہوجاتے۔ لہٰذا متنبی کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور اپنے بھائی یا اتحادی قرار دیا جائے۔ ایمان والوں پر نبی کا حق سب سے زیادہ ہے اور نبی کی زوجات مطہرات ”امہات المومنین“ ہیں۔ پھر غزوہ احزاب میں پورے عرب کے کفر کا اجتماع اور ہر طرف سے یلغار کے مقابلہ میں اللہ کی مدد و نصرت کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے تیز ہوا چلا کر نصرت فرمائی اور مشرکین کے قدم اکھاڑ دیئے۔ منافقین اور یہودیوں کی مذمت ہے، جنہوں نے اس موقع پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ پھر غزوہ بنی قریظہ میں یہود کے مقابلہ میں اللہ کی نصرت اور ان کی جائیدادوں اور زمینوں پر مسلمانوں کے قبضہ کو یاد دلاکر ہر چیز پر اللہ کی قدرت و غلبہ کی تمہید بنائی گئی ہے اور آخر میں ”آیت تخییر“ ہے، جس میں ازواج مطہرات کے سالانہ نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر انہیں مطالبہ سے دستبردار ہوکر حرم نبوی میں رہنے یا علیحدگی اختیار کرلینے کا حکم دیا گیا، جس پر تمام امہات المومنین نے حرم نبوی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے مالی مطالبہ سے دستبرداری کا اظہار کردیا، جس پرا للہ نے ان مخلص خواتین کے لئے اجر عظیم کا وعدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بائیسویں پارے کے اہم مضامین
ازواج مطہرات کے اعمال صالحہ پر دُہرے اجر اور رزق کریم کی نوید سنائی گئی ہے۔ امہات المومنین اور ان کے توسط سے تمام دنیا کی خواتین مومنات کو پیغام دیا گیا ہے کہ کسی نامحرم سے گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو کُھر درے پن کا مظاہرہ کریں۔ نرم گفتاری کا معاملہ نہ کریں ورنہ اخلاقی پستی کے مریض اپنے ناپاک خیالات کو پورا کرنے کی امید قائم کرسکتے ہیں۔ گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔ سابقہ جاہلیت کے طور طریقوں کے مطابق بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰة ادا کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ نبی کے اہل بیت سے ناپاکی دور فرما کر انہیں پاکیزہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں اہل بیت کا مصداق اوّلی ازواج مطہرات ہیں۔ پھر ازواج مطہرات کے خصوصی اعزاز کا تذکرہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و حکمت کا نزول ہوتا ہے تمہیں اس کا اعادہ اور تکرار کرتے رہنا چاہئے۔ اس کے بعد صفات محمودہ میں مردو زن کی مساوات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام، ایمان، اطاعت شعاری، سچائی، صبر، عجزو انکساری، صدقہ و خیرات کی ادائیگی، روزہ کا اہتمام، عفت و پاکدامنی اور اللہ کے ذکر میں رطبِ لسان رہنے والے تمام مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔ پھر کسی بھی مومن مرد و عورت کے ایمان کے تقاضے کو بیان کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سامنے آجانے کے بعد اسے رد کرنے کے حوالہ سے کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد ان کی مطلقہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح کرکے یہ مسئلہ واضح کردیا کہ متبنّٰی کی بیوی ”بہو‘ نہیں بن سکتی۔ پھر آپ کے خاتم النبیین ہونے اور مسلمان مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہونے کا واضح اعلان ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو تسبیح و تحمید اور ذکر کی کثرت کرنے کی تلقین ہے اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی کچھ امتیازی خوبیوں کا تذکرہ کہ آپ مشاہد، بشیر و نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پھر رخصتی سے پہلے طلاق پانے والی عورت کے متعلق بتایا کہ اس کی کوئی عدت نہیں ہوتی اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو جوڑا کپڑوں کا دے کر اسے فارغ کردیاجائے۔ پھر نبی کے لئے عام مومنین کے مقابلہ میں زیادہ بیویاں رکھنے کا جواز اور ”باری“ مقرر کرنے کے حکم کے ساتھ ہی مزید شادیاں کرنے پر پابندی کا اعلان کیا گیا۔ نبی کے گھرمیں بے مقصد بیٹھ کر آپ کے لئے پریشانی پیدا کرنے سے بچنے کی تلقین، پردے کے بارے میں دو ٹوک اعلان کہ اگر کوئی ضرورت پیش آہی جائے تو نامحرم سے گفتگو پردہ کے پیچھے رہ کر کی جائے۔ نبی کے انتقال کے بعد کسی کو ازواج مطہرات سے کسی بھی حالت میں نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے نبی پر صلاة و سلام کی خوشخبری سنا کر اہل ایمان کو بھی آپ پر صلاة و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کی ایزا رسانی کا باعث بننے والے ملعون اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں۔ پھر اسلامی معاشرہ کی خواتین کو پردہ کرنے کے لئے ”گھونگھٹ“ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیںجانتا۔ کافر جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے کسی کے گناہوں کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا ہر ایک کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ناجائز الزام سے بری قرار دے کر اللہ کی نگاہ میں ان کے معزز و محترم ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پھر اہل ایمان کو تقویٰ اور پختہ بات کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر مغفرت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری سنائی ہے۔ اسلام کی عظیم الشان امانت جسے زمین و آسمان اور پہاڑ اٹھانے سے قاصر رہے اس انسان کے حصہ میں آنے کی خبر دے کر بتایا ہے کہ اس سے منافق و مومن اور مشرک و موحد کا فرق واضح ہوگا اور ہر ایک کو اپنے کئے کا بدلہ مل سکے گا۔ اللہ بڑے غفور رحیم ہیں۔
ازواج مطہرات کے اعمال صالحہ پر دُہرے اجر اور رزق کریم کی نوید سنائی گئی ہے۔ امہات المومنین اور ان کے توسط سے تمام دنیا کی خواتین مومنات کو پیغام دیا گیا ہے کہ کسی نامحرم سے گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو کُھر درے پن کا مظاہرہ کریں۔ نرم گفتاری کا معاملہ نہ کریں ورنہ اخلاقی پستی کے مریض اپنے ناپاک خیالات کو پورا کرنے کی امید قائم کرسکتے ہیں۔ گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔ سابقہ جاہلیت کے طور طریقوں کے مطابق بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰة ادا کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ نبی کے اہل بیت سے ناپاکی دور فرما کر انہیں پاکیزہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں اہل بیت کا مصداق اوّلی ازواج مطہرات ہیں۔ پھر ازواج مطہرات کے خصوصی اعزاز کا تذکرہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و حکمت کا نزول ہوتا ہے تمہیں اس کا اعادہ اور تکرار کرتے رہنا چاہئے۔ اس کے بعد صفات محمودہ میں مردو زن کی مساوات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام، ایمان، اطاعت شعاری، سچائی، صبر، عجزو انکساری، صدقہ و خیرات کی ادائیگی، روزہ کا اہتمام، عفت و پاکدامنی اور اللہ کے ذکر میں رطبِ لسان رہنے والے تمام مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔ پھر کسی بھی مومن مرد و عورت کے ایمان کے تقاضے کو بیان کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سامنے آجانے کے بعد اسے رد کرنے کے حوالہ سے کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد ان کی مطلقہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح کرکے یہ مسئلہ واضح کردیا کہ متبنّٰی کی بیوی ”بہو‘ نہیں بن سکتی۔ پھر آپ کے خاتم النبیین ہونے اور مسلمان مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہونے کا واضح اعلان ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو تسبیح و تحمید اور ذکر کی کثرت کرنے کی تلقین ہے اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی کچھ امتیازی خوبیوں کا تذکرہ کہ آپ مشاہد، بشیر و نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پھر رخصتی سے پہلے طلاق پانے والی عورت کے متعلق بتایا کہ اس کی کوئی عدت نہیں ہوتی اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو جوڑا کپڑوں کا دے کر اسے فارغ کردیاجائے۔ پھر نبی کے لئے عام مومنین کے مقابلہ میں زیادہ بیویاں رکھنے کا جواز اور ”باری“ مقرر کرنے کے حکم کے ساتھ ہی مزید شادیاں کرنے پر پابندی کا اعلان کیا گیا۔ نبی کے گھرمیں بے مقصد بیٹھ کر آپ کے لئے پریشانی پیدا کرنے سے بچنے کی تلقین، پردے کے بارے میں دو ٹوک اعلان کہ اگر کوئی ضرورت پیش آہی جائے تو نامحرم سے گفتگو پردہ کے پیچھے رہ کر کی جائے۔ نبی کے انتقال کے بعد کسی کو ازواج مطہرات سے کسی بھی حالت میں نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے نبی پر صلاة و سلام کی خوشخبری سنا کر اہل ایمان کو بھی آپ پر صلاة و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کی ایزا رسانی کا باعث بننے والے ملعون اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں۔ پھر اسلامی معاشرہ کی خواتین کو پردہ کرنے کے لئے ”گھونگھٹ“ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیںجانتا۔ کافر جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے کسی کے گناہوں کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا ہر ایک کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ناجائز الزام سے بری قرار دے کر اللہ کی نگاہ میں ان کے معزز و محترم ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پھر اہل ایمان کو تقویٰ اور پختہ بات کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر مغفرت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری سنائی ہے۔ اسلام کی عظیم الشان امانت جسے زمین و آسمان اور پہاڑ اٹھانے سے قاصر رہے اس انسان کے حصہ میں آنے کی خبر دے کر بتایا ہے کہ اس سے منافق و مومن اور مشرک و موحد کا فرق واضح ہوگا اور ہر ایک کو اپنے کئے کا بدلہ مل سکے گا۔ اللہ بڑے غفور رحیم ہیں۔
سورة النور
یہ مدنی سورت ہے ۔ چونسٹھ آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے، اس سورت میں پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے کے زرین اصول بیان کئے گئے ہیں اور بھرپور انداز میں قانون سازی کا عمل سر انجام دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی توحید کے موضوع پر بھی دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں۔ زنا کار مردوں عورتوں کو بے رحم قانون کے شکنجہ میں کسنے کا حکم دیا ہے اور سزا کو مو ثر بنانے کے لئے عوام کے مجمع کے سامنے سزا نافذ کرنے کی تلقین ہے تاکہ زانی کو زیادہ سے زیادہ تکالیف اور ذلت و رسوائی ہو اور سزا کا مشاہدہ کرنے والوں کے لئے بھی عبرت و موعظت کی صورت پیدا ہو۔ غیر شادی شدہ مرد و عورت ارتکاب زنا کی صورت میں سو کوڑوں کے مستحق قرار دیئے گئے ہیں اور زانی اور مشرک کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوںکی شرط عائد کی گئی ہے اور زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر اسی کوڑوں کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے اور مستقبل میں ایسے شخص کو مردود الشہادة قرار دیا گیا ہے۔ میاں بیوی میں اگر اعتماد کا فقدان ہوجائے اور شوہر کو بیوی پر زناکاری کے حوالہ سے اعتراض ہو مگر اس کے پاس گواہ موجود نہ ہوں اور بیوی اعتراف نہ کرتی ہو تو اس بے اعتمادی کی حالت میں خاندانی زندگی مشکلات کا شکار ہوجائے گی، اس لئے ایسی شادی کو ختم کرنے کے لئے ”لعان“ کے نام سے قانون وضع کیا گیا ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر عدالت کے اندر اپنے الزام کو حلفیہ طور پر چار مرتبہ دہرائے اور اپنی صداقت کا اعتراف کرے اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ میرے جھوٹا ہونے کی صورت میں مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ جبکہ بیوی چار مرتبہ حلفیہ طور پر شوہر کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹا قرار دے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر شوہر اپنی بات میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کے بعد عدالت ان میں علیحدگی کا فیصلہ کردے اور آئندہ انہیں میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کے حق سے محروم کردے۔ اس کے بعد واقعہ افک اور اس کے متعلق احکام کا بیان ہے۔ جہاد کے ایک سفر میںحضرت عائشہ حضور علیہ السلام کے ہمراہ تھیں، ایک جگہ پڑاﺅ کے موقع پر وہ قضاءحاجت کے لئے گئی ہوئی تھیں کہ لشکر کو روانگی کا حکم دے دیا گیا اور وہ لشکر سے پیچھے رہ گئیں۔ پیچھے رہ جانے والے سامان کی دیکھ بھال کے لئے مقرر شخص صفوان بن معطل بعد میں حضرت عائشہ کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو منافقین نے یہودیوں کے ساتھ مل کر افواہوں اور جھوٹے الزامات کا ایک طوفان کھڑا کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی پاکبازی اور برا
ت کا اعلان کیا اور ایسی صورتحال کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ زنا کے الزام کی صورت میں اگر چار گواہ پیش نہ کئے جاسکیں تو الزام لگانے والے کو جھوٹا شمار کرکے ”حد قذف“ کا مستحق قرار دے کر کوڑوں کی سرعام سزا جاری کی جائے تاکہ آئندہ کے لئے ایسی افواہوں اور الزامات کے پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور دوسروں کی کردار کشی کی ناجائز حرکتوں کا سد باب ہوسکے۔ دوسروں پر الزام لگانے کو معمولی نہ سمجھا جائے، اس سے معاشرہ میں بے حیائی کا حجاب اٹھتا ہے اور اسلامی معاشرہ کے ایک معزز شخص کی عزت کی پامالی اور کردار کشی ہوتی ہے، لہٰذا اگر بلا ثبوت ایسا کوئی الزام سامنے آئے تو یہ سوچ لو کہ ایسی کوئی بات اگر تمہارے بارے میں کہی جائے تو تمہارا رویہ کیا ہوگا اور اس جھوٹے الزام کو اپنے بارے میں تم کس حد تک تسلیم کرو گے۔ اگر اپنے بارے میں تسلیم نہیں کرتے تو دوسرے کے باروں میں اس طرح تسلیم کرلینے کا کیا جواز ہے۔ تمہیں تو اس قسم کی باتوں کا تذکرہ بھی زبان پر لانے سے گریز کرنا چاہئے۔ فحاشی اور عریانی کی باتیں پھیلانے والوں کے لئے دنیا میں کوڑوں کی شکل میں آخرت میں جہنم کی آگ کی شکل میں دردناک عذاب ہے۔ اس واقعہ میں حضرت ابوبکر کی زیر کفالت ان کا ایک رشتہ دار مسطح بن اثاثہ بھی ملوث تھا جب ان کی صاحبزادی ام المو منین حضرت عائشہ کی برا
ت کے لئے آیات قرآنیہ نازل ہوگئیں تو صدیق اکبر نے ان کی کفالت سے دستکشی اختیار کرلی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مالی وسعت رکھنے والوں کو زیب نہیں دیتا کہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کسی کی روزی کو بند کرنے کی کوشش کریں۔ عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ بھی تم سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائیں۔ اس ارشاد قرآنی کے بعد صدیق اکبر نے فوراً ہی ان کا وظیفہ بحال کردیا۔ اس کے بعد قرآن کریم نے بتایا کہ بے حیا اور بدکار مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ جبکہ پاکیزہ اور صالح مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ لہٰذا عائشہ صدیقہ جب حضور علیہ السلام جیسے پاکیزہ اور نیک لوگوںکے سردار کی بیوی ہیں تو ان کی پاکبازی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ گھروں میں داخلہ کے وقت سلام کرنے اور اجازت لے کر اندر جانے کی تلقین اور عورتوں کو اپنی زیب و زینت ظاہر کرنے سے منع کرنے اور پردہ کا اہتمام کرنے کی ترغیب اور مردوں عورتوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ پھر آسمان و زمین کی نشانیوں میں غور کرکے اللہ کی قدرت کا اعتراف کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا۔ کافروں کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دے کر بتایا ہے کہ جس طرح سخت گرمی میں صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر پانی کا گمان ہونے لگتا ہے جبکہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی اسی طرح کافروں کے اعمال قیامت کے دن بے حقیقت قرار پائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ کرنے والوں کو زمین میں اقتدار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ایسے مخصوص اوقات جن میں گھر کے اندر زوجین عام طور پر شب خوابی کے لباس میں ہوتے ہیں ایسے وقت میں گھر کے افراد کو بھی بغیر اجازت کے کمرے میںجانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ گھر کی استعمال کی اشیاءاور کھانے پینے کی چیزیں دوسرے کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے کے لئے ضابطہ بیان کردیا کہ معذور حاجتمند ہو یا قریبی رشتہ داری اور تعلق ہو جس کے پیشِ نظر اس بات کا یقین ہو کہ مالک برا نہیں منائے گا تو اس کی چیز کو بلا اجازت استعمال کی اجازت ہے۔
سورة الرحمن
اٹھتر چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل مدنی سورت ہے۔ اس میں قانون سازی کی بجائے توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد قائم کئے گئے ہیں اور قیامت کے مناظر، جہنم کی ہولناکی اور خاص طور پر جنت اور اس کے خوشنما مناظر کو نہایت خوبصورتی اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایک حدیث شریف میں اس سورت کو عروس القرآن یعنی ”قرآن کریم کی دلہن“ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں بالکل منفرد انداز میں ایک ہی جملہ ”فبا
ی الٓاءربکما تکذبان“ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے، کو اکتیس مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنات کو جب حضور علیہ السلام نے سورة الرحمن سنائی تو وہ ہر مرتبہ یہی کہتے رہے ”لا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد“ ہم آپ کی کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں۔ شروع سورت میں بتایا ہے کہ رحمت الٰہیہ کے مظاہر میں ایک بڑا مظہر قرآن کریم کی تعلیم اور انسان کو اس کے پڑھنے کا سلیقہ سکھانا اور اسے قوت بیان کا عطاءکرنا ہے۔ سورج اور چاند حساب کے ایک نہایت ہی دقیق نظام کے تحت چل رہے ہیں، پودے اور درخت بھی اللہ کے نظام کے پابند اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اسی نے آسمان کو بلند کیا اور عدل و انصاف کا مظہر ”ترازو“ پیدا کیا لہٰذا ناپ تول میں کسی کمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ زمین کو اس انداز پر پیدا کیا کہ تمام مخلوقات اس پر بآسانی زندگی بسر کرسکیں۔ اس میں پھول، خوشہ دار کھجور، غلے اور چارہ اور خوشبودار پھول پیدا کئے۔ ان نعمتوں میں غور کرکے بتاﺅ آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔ ایسی مٹی جو خشک ہوکر بجنے لگ جاتی ہے ہماری قدرت کا کمال دیکھو کہ ہم نے اس سے نرم و نازک جسم والا انسان پیدا کردیا اور جنات کو بھڑکنے والی آگ سے پیدا کیا۔ کھارے اور میٹھے پانی کی لہروں کو آپس میں مل کر ایک دوسرے کا ذائقہ اور تاثیر بدلنے سے اس طرح روکتا ہے جیسے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم ہو۔ ان سے موتی اور مرجان کا خوشنما پتھر بھی حاصل ہوتا ہے اور پہاڑوں جیسی ضخامت کے بحری جہاز بھی ان سمندروں کے اندر تیرتے اور نقل و حمل کے لئے سفر کرتے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز کو فنا ہے مگر رب ذوالجلال کے لئے دائمی بقاءہے۔ اس طرح انعامات خداوندی کے تذکرہ کے بعد قیامت کے ہولناک مناظر اور جہنم کی دہشت ناک سزاﺅں کا تذکرہ کیا اور جنت کے روح پرور مناظر کا بیان شروع کردیا جس میں باغات اور چشمے، انواع و اقسام کے پھل، ریشم و کمخواب کے لباس، یاقوت و مرجان کی طرح حسن و جمال اور خوبصورتی کی پیکر جنتی حوریں جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی ہوں گی اور آخر میں رب ذوالجلال والا کرام کے نام کی برکتوں کے تذکرہ پر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔
سورہ صف
اس میں صف باندھ کر جہاد کرنے کا تذکرہ ہے۔ اللہ کی تسبیح کے بیان کی تلقین کے بعد مسلمانوں کو غلط بیانی اور جھوٹے دعوے سے گریز کا حکم ہے اور مضبوط سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اعلاءکلمة اللہ کے لئے جہاد کرنے والوں کے لئے محبت الٰہی کا اعلان ہے۔ پھر حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی دعوت و قربانیوں کا تذکرہ خاص طور پر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ”بعثت محمدیہ“ کی بشارت کا بیان ہے۔ اسلام کا راستہ روکنے کی کافرانہ کوششوں کو بچگانہ حرکت قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے ”پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا“ اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کے آسمانی فیصلہ کا اعلان ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کو کامیاب تجارت قرار دے کر دردناک عذاب سے نجات، جنت کے باغات و انہار اور عالیشان محلات کی عطاءکے ساتھ دنیا میں فتح و کامرانی کی نوید ہے اور یہ بتایا ہے کہ دین کی جدوجہد کرنے والوں کو ہر دور میں کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر لبیک کہنے والے حواریین کی اللہ نے مدد فرماکر انہیں غلبہ نصیب فرمایا تھا۔ تم بھی حضور علیہ السلام کی حمایت کروگے تو فتح و غلبہ اور نصرت خداوندی شامل حال ہوگی۔
آیۃ الکرسی کی فضیلت اور عظمت:
پہلی آیت سے حق سبحانہ کی عظمت شان بھی مفہوم ہو تی ہے اب اس کے بعد اس آیت کو جس میں توحید ذات اور اس کا تقدس و جلال غایت عظمت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے نازل فرمائی اور اسی کا لقب آیۃ الکرسی ہے اسی کو حدیث میں اعظم آیات کتاب اللہ فرمایا ہے اور بہت فضیلت اور ثواب منقول ہے اور اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رلا ملا کر تین قسم کے مضمون کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے علم توحید و صفات، علم احکام، علم قصص و حکایات سے بھی توحید و صفات کی تقریر و تائید مقصود ہوتی ہے یا علم احکام کی تاکید و ضرورت اور علم توحید و صفات اور علم احکام بھی باہم ایسے مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے علت اور علامت ہے صفات حق تعالیٰ احکام شرعیہ کے حق میں منشاء اور اصل ہیں تو احکام شرعیہ صفات کے لئے بمنزلہ ثمرات اور فروع ہیں تو اب ظاہر ہے کہ علم قصص اور علم احکام سے علم توحید کو ضرور اعانت اور تقویت پہنچے گی اور علم قصص اور علم توحید و صفات سے ضرور علم احکام کی تاکید اور اس کی ضرورت بلکہ حقیقت اور اصلیت ثابت ہو گی اور یہ طریقہ جو تین طریقوں سے مرکب ہے بغایت احسن اور اسہل اور قابل قبول ہے اول تو اس وجہ سے کہ ایک طریقہ کہ پابندی موجب ملال ہوتی ہے اور ایک علم سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجانا ایسا ہوجاتا ہے جیسا ایک باغ کی سیر کر کے دوسرے باغ کی سیر کرنے لگے دوسرے تینوں طریقوں سے مل کر حقیقت منشاء ثمرہ نتیجہ سب ہی معلوم ہو جائے گا اور اس میں تعمیل احکام نہایت شوق و مستعدی اور رغبت و بصیرت کے ساتھ ہو گی۔ اس لئے طریقہ مذکورہ بغایت عمدہ اور مفید اور قرآن مجید میں کثیر الاستعمال ہے اس جگہ دیکھ لیجئے کہ اول احکام کو کس کثرت و تفصیل سے بیان فرمایا اس کے بعد بقدر مصلحت قصص کو بیان کر کے تمام احکامات مذکورہ کے فوائد و نتائج گویا ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیئے ان سب کے بعد آیۃ الکرسی جو کہ دربارہ توحید و صفات ممتاز آیت ہے اس کو بیان فرما کر جملہ احکامات کی جڑ کو دلوں میں ایسا مستحکم فرما دیا کہ اکھاڑے نہ اکھڑے۔
توحید و صفات باری تعالیٰ:
اس آیت میں توحید ذات اور عظمت صفات حق تعالیٰ کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ موجود ہے ہمیشہ سے اور کوئی اس کا شریک نہیں تمام مخلوقات کا موجد وہی ہے تمام نقصان اور ہر طرح کے تبدل اور فتور سے منزہ ہے سب چیزوں کا مالک ہے تمام چیزوں کا کامل علم اور سب پر پوری قدرت اور اعلیٰ درجے کی عظمت اس کو حاصل ہے کسی کو نہ اتنا استحقاق نہ اتنی مجال کہ بغیر اس کے حکم کے کسی کی سفارش بھی اس سے کر سکے کوئی امر ایسا نہیں جس کے کرنے میں اس کو دشواری اور گرانی ہو سکے ۔ تمام چیزوں اور سب کی عقلوں سے برتر ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر ہیں ۔ اس سے دو مضمون اور خوب ذہن نشین ہو گئے ایک تو حق تعالیٰ کی ربوبیت اور حکومت اور اپنی محکومیت اور عبدیت جس سے حق تعالیٰ کے تمام احکامات مذکورہ اور غیر مذکورہ کا بلا چون و چراں واجب التصدیق اور واجب التعمیل ہونا اور اس کے احکام میں کسی قسم کے شک و شبہ کا معتبرنہ ہونا معلوم ہو گیا دوسرے عبادات و معاملات کثیرہ مذکورہ سابقہ کو اور ان کے ساتھ تنعیم و تعذیب کو دیکھ کر کسی کو خلجان ہو سکتا تھا کہ ہر ہر فرد کے اس قدر معاملات و عبادات کثیرہ ہیں کہ جن کا مجموعہ اتنا ہوا جاتا ہے کہ ان کا ضبط اور حساب کتاب محال معلوم ہوتا ہے پھر اس کے مقابلہ میں ثواب و عقاب یہ بھی عقل سے باہر غیر ممکن معلوم ہوتا ہے سو اس آیت میں حق سبحانہ نے چند صفات مقدسہ اپنی ایسی ذکر فرمائیں کہ وہ تمام خیالات بسہولت دور ہوگئے یعنی اس کا علم و قدرت ایسا کامل ہے کہ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے باہر ہو جس کا علم اور قدرت ایسا غیر متناہی اور ہمیشہ یکساں رہنے والا ہو اس کو تمام جزئیات عالم کے ضبط رکھنے اور ان کاعوض عطا فرمانے میں کیا دقت ہو سکتی ہے۔
دین میں جبر نہیں:
جب دلائل توحید بخوبی بیان فرما دی گئیں جس سے کافر کا کوئی عذر باقی نہ رہا تو اب زور سے کسی کو مسلمان کرنے کی کیا حاجت ہو سکتی ہے عقل والوں کو خود سمجھ لینا چاہیئے اور نہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ زبردستی کسی کو مسلمان بناؤ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (یونس۔۹۹) خود نص موجود ہے اور جو جزیہ کو قبول کرے گا اس کا جان و مال محفوظ ہو جائے گا۔
یعنی جب ہدایت و گمراہی میں تمیز ہو گئ تو اب جو کوئی گمراہی کو چھوڑ کر ہدایت کو منظور کرے گا تو اس نے ایسی مضبوط چیز کو پکڑ لیا جس میں ٹوٹنے چھوٹنے کا ڈر نہیں اور حق تعالیٰ اقوال ظاہرہ کو خوب سنتا ہے اور نیت حالت قلبی کو خوب جانتا ہے اس سے کسی کی خیانت اور فساد نیت چھپا نہیں رہ سکتا۔
پہلی آیت سے حق سبحانہ کی عظمت شان بھی مفہوم ہو تی ہے اب اس کے بعد اس آیت کو جس میں توحید ذات اور اس کا تقدس و جلال غایت عظمت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے نازل فرمائی اور اسی کا لقب آیۃ الکرسی ہے اسی کو حدیث میں اعظم آیات کتاب اللہ فرمایا ہے اور بہت فضیلت اور ثواب منقول ہے اور اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رلا ملا کر تین قسم کے مضمون کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے علم توحید و صفات، علم احکام، علم قصص و حکایات سے بھی توحید و صفات کی تقریر و تائید مقصود ہوتی ہے یا علم احکام کی تاکید و ضرورت اور علم توحید و صفات اور علم احکام بھی باہم ایسے مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے علت اور علامت ہے صفات حق تعالیٰ احکام شرعیہ کے حق میں منشاء اور اصل ہیں تو احکام شرعیہ صفات کے لئے بمنزلہ ثمرات اور فروع ہیں تو اب ظاہر ہے کہ علم قصص اور علم احکام سے علم توحید کو ضرور اعانت اور تقویت پہنچے گی اور علم قصص اور علم توحید و صفات سے ضرور علم احکام کی تاکید اور اس کی ضرورت بلکہ حقیقت اور اصلیت ثابت ہو گی اور یہ طریقہ جو تین طریقوں سے مرکب ہے بغایت احسن اور اسہل اور قابل قبول ہے اول تو اس وجہ سے کہ ایک طریقہ کہ پابندی موجب ملال ہوتی ہے اور ایک علم سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجانا ایسا ہوجاتا ہے جیسا ایک باغ کی سیر کر کے دوسرے باغ کی سیر کرنے لگے دوسرے تینوں طریقوں سے مل کر حقیقت منشاء ثمرہ نتیجہ سب ہی معلوم ہو جائے گا اور اس میں تعمیل احکام نہایت شوق و مستعدی اور رغبت و بصیرت کے ساتھ ہو گی۔ اس لئے طریقہ مذکورہ بغایت عمدہ اور مفید اور قرآن مجید میں کثیر الاستعمال ہے اس جگہ دیکھ لیجئے کہ اول احکام کو کس کثرت و تفصیل سے بیان فرمایا اس کے بعد بقدر مصلحت قصص کو بیان کر کے تمام احکامات مذکورہ کے فوائد و نتائج گویا ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیئے ان سب کے بعد آیۃ الکرسی جو کہ دربارہ توحید و صفات ممتاز آیت ہے اس کو بیان فرما کر جملہ احکامات کی جڑ کو دلوں میں ایسا مستحکم فرما دیا کہ اکھاڑے نہ اکھڑے۔
توحید و صفات باری تعالیٰ:
اس آیت میں توحید ذات اور عظمت صفات حق تعالیٰ کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ موجود ہے ہمیشہ سے اور کوئی اس کا شریک نہیں تمام مخلوقات کا موجد وہی ہے تمام نقصان اور ہر طرح کے تبدل اور فتور سے منزہ ہے سب چیزوں کا مالک ہے تمام چیزوں کا کامل علم اور سب پر پوری قدرت اور اعلیٰ درجے کی عظمت اس کو حاصل ہے کسی کو نہ اتنا استحقاق نہ اتنی مجال کہ بغیر اس کے حکم کے کسی کی سفارش بھی اس سے کر سکے کوئی امر ایسا نہیں جس کے کرنے میں اس کو دشواری اور گرانی ہو سکے ۔ تمام چیزوں اور سب کی عقلوں سے برتر ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر ہیں ۔ اس سے دو مضمون اور خوب ذہن نشین ہو گئے ایک تو حق تعالیٰ کی ربوبیت اور حکومت اور اپنی محکومیت اور عبدیت جس سے حق تعالیٰ کے تمام احکامات مذکورہ اور غیر مذکورہ کا بلا چون و چراں واجب التصدیق اور واجب التعمیل ہونا اور اس کے احکام میں کسی قسم کے شک و شبہ کا معتبرنہ ہونا معلوم ہو گیا دوسرے عبادات و معاملات کثیرہ مذکورہ سابقہ کو اور ان کے ساتھ تنعیم و تعذیب کو دیکھ کر کسی کو خلجان ہو سکتا تھا کہ ہر ہر فرد کے اس قدر معاملات و عبادات کثیرہ ہیں کہ جن کا مجموعہ اتنا ہوا جاتا ہے کہ ان کا ضبط اور حساب کتاب محال معلوم ہوتا ہے پھر اس کے مقابلہ میں ثواب و عقاب یہ بھی عقل سے باہر غیر ممکن معلوم ہوتا ہے سو اس آیت میں حق سبحانہ نے چند صفات مقدسہ اپنی ایسی ذکر فرمائیں کہ وہ تمام خیالات بسہولت دور ہوگئے یعنی اس کا علم و قدرت ایسا کامل ہے کہ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے باہر ہو جس کا علم اور قدرت ایسا غیر متناہی اور ہمیشہ یکساں رہنے والا ہو اس کو تمام جزئیات عالم کے ضبط رکھنے اور ان کاعوض عطا فرمانے میں کیا دقت ہو سکتی ہے۔
دین میں جبر نہیں:
جب دلائل توحید بخوبی بیان فرما دی گئیں جس سے کافر کا کوئی عذر باقی نہ رہا تو اب زور سے کسی کو مسلمان کرنے کی کیا حاجت ہو سکتی ہے عقل والوں کو خود سمجھ لینا چاہیئے اور نہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ زبردستی کسی کو مسلمان بناؤ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (یونس۔۹۹) خود نص موجود ہے اور جو جزیہ کو قبول کرے گا اس کا جان و مال محفوظ ہو جائے گا۔
یعنی جب ہدایت و گمراہی میں تمیز ہو گئ تو اب جو کوئی گمراہی کو چھوڑ کر ہدایت کو منظور کرے گا تو اس نے ایسی مضبوط چیز کو پکڑ لیا جس میں ٹوٹنے چھوٹنے کا ڈر نہیں اور حق تعالیٰ اقوال ظاہرہ کو خوب سنتا ہے اور نیت حالت قلبی کو خوب جانتا ہے اس سے کسی کی خیانت اور فساد نیت چھپا نہیں رہ سکتا۔
No comments:
Post a Comment
اپنا تبصرہ یہاں لکھیں